Raja Pakistani
رؤف کو قائد بستی کے لوگ راجہ کے نام سے جانتے ہیں۔
راجہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا وہ منحوس بچہ ہے جس کا باپ اُسکی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہی ایک کوٹھی کی تعمیر کے دوران چھت سے گر کرمرگیا تھا اور جس کی ماں اُسے جنم دینے کے بعد زچگی کے پچیدگی کے باعث مرگئی تھی، پاکستان وہ ملک ہے دنیا میں جہاں زچگی کی حالت میں ہونے والی اموات سب سے زیادہ ہیں، سو راجہ کی ماں بھی ایک اطائی دائی کے رحم و کرم کی واجہ سے چل بسی۔
راجہ اپنے چاچا کے ہاتھوں گلیوں اور بازاروں میں کھیلتا کودتا جوان ہوا۔ کبھی سکول جانے کا نہ سوچا اورنہ خیال کیا۔ چاچے نے بھی اُسکی لڑاکا طبیعت دیکھ کر اُسے بھتہ لینا والا بنادیا۔ راجہ ایک بدمعاش راجہ بن کر ابھرا۔ مگر بدمعاشی راجے کی رگوں میں اُسی وقت جوش مارتی جب وہ کسی مظلوم کے ساتھ زیادتی دیکھتا،کسی کی حق تلفی ہوتے دیکھتا،کوئی بے جا روی اختیار کرتا تو راجہ کو جوش آجاتا۔ پھر راجہ کے سامنے کوئی نہیں ٹک سکتا تھا!
قائدبستی میں بہت سے مختلف قبیلوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ یہاں پنجابی ہیں، سندھی ہیں ، پٹھان ہیں ، مکرانی ہیں، بروہی ہیں، افغان ہیں،مہاجر ہیں، ہندوہیں، عیسائی ہیں،الغرض ہر قبیلے کا اکّادکاّ خاندان آباد ہے اور اِن سب کے لیے راجہ ایک فرشتہ صفت انسان ہے جو اِن کو ایک صف میں باندھے رکھتا۔ وہ معصوم بچوں کو ٹافیاں لے کر دیتا، غریبوں کی دادرسی کرتا، معذوروں کا سہارا بنتا۔ لیکن ظالموں کے لیے وہ آگ برساتا ایندھن ہوتا!
بستی میں ایک بزرگ بھی رہتے ہیں، سب کو سچائی کا درس دیتے،سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں، بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور اللہ اللہ کرتے ہیں۔راجہ کو اِن بزرگ سے بہت گہری عقیدت ہے۔وہ گھنٹوں ان کی خدمت میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ یہ بزرگ کی صحبت ہی کی وجہ ہے کہ راجہ نے کبھی کسی حقدار کا حق تلف نہیں کیا!
زرگ بھی راجہ کے اندر جھانک کر دیکھتے اور اسے ایک حلیم، نیک اور ہمدرد انسان پاتے اور جسکی وجہ سے شفقت سے پیش آتے۔ مگرانہیں صرف ایک بات کا افسوس رہتا کہ راجہ نے ہمیشہ تعلیم سے نفرت کی اور کبھی سکول نہیں پڑھا! راجہ کا کہنا تھا کہ تعلیم انسان کو بزدل بنا دیتی ہے، مرد سے اسکی مردانگی چھین لیتی ہے اور جھوٹ کا زہر رگوں میں گھول دیتی ہے۔
لیکن بزرگ ہمیشہ اپنی نصیحت کرتے اور راجہ سن کر ان سنی کردیتا۔ لیکن کب تک؟ ایک دن راجہ نے بزرگ کی بات مان لی اور پڑھنے کی حامی بھرلی۔تعلیم وہ زیور ہے جو کسی عمر میں بھی پہناجاسکتا ہے، معیوب نہیں لگتا! بزرگ نے اپنی شفقت کا ہاتھ راجہ پر رکھا اور اللہ کا نام لے لیکر اردو کا پہلا قاعدہ پڑھانا شروع کیا۔ الف۔ بے ۔ پے۔ تے……..سے راجہ اردو کی کتاب پڑھنے کے قابل ہوا۔ جب اُس نے کتاب کھولی تو سب سے پلے حمدِ باری تعالیٰ پھر ثنارسولؐ،پھر اسلامیات کی ایک کہانی، پھرپاکستان اور قائدِاعظم کے اتحاد، اتفاق اور نظم و ضبط کا درس پڑھ کر راجہ کا دل منور ہوگیا۔ وہ پچھتانے لگا کہ اُس نے پہلے سکول کا منہ کیوں نہیں دیکھا جہاں پر اتفاق اور یکجہتی پر ایسا خوبصورت درس دیا جاتا ہے۔
راجہ کی محنت، لگن اور سیکھنے کی صلاحیت نے اُسے بہت جلد بہت کچھ سیکھا دیا۔اب وہ اخبارات بھی پڑھنے کے قابل ہو چکا تھا۔ ایک دن وہ بزرگ کی صحبت میں آیا تو پاس ایک اخبار پڑا ہوا تھا۔راجہ نے وہ اخبار اٹھا کرپڑھنے کی مشق شروع کردی:
ایک سرخی: پاکستان کی ترقی میں پنجابیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے: ایک پنجابی لیڈر
دوسری سرخی: سندھیوں کی سلامتی کے لیے سندھودیش کا قیام ناگزیر ہے: ایک سندھی لیڈر
تیسری سرخی: ہمیں اپنی شناخت چاہیے، پختون خواہ کا قیام لازمی ہے: ایک پختون لیڈر
چوتھی سرخی: بلوچیوں کے حق کو ہمیشہ لوٹا گیا ہے، اب ہم چپ نہیں رہیں گے: ایک بلوچ لیڈر
پانچویں سرخی: ہم جانیں دیں دیں گے مگر ڈیم نہیں بننے دیں گے۔۔
ڈیم بنے تو یہ ملک سلامت نہیں رہے گا – ایک اور سرخی
ایک اور جگہ لکھاہواتھا: مسجد میں دھماکہ، چرچ میں دھماکہ، شیعہ مذہبی لیڈر کا قتل، عالمِ دین کو قتل کردیا گیا…….
راجہ جیسے جیسے اخبار کو دیکھتا اُسے ایسے خبریں ملتیں۔ راجہ کا چہرہ غصے سے تپنے لگا وہ آناً فاناً آگ بگولابن گیا۔ وہ ایک کرب کی شدت سے چیخا اور اپنے بزرگ کی طرف دیکھ کر بولا:
’’آپ تو کہتے ہو کہ تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے، یہ کیسے انسان ہیں جو اپنے ہی ملک کے ٹکڑے کرنے پرتلے ہیں؟ یہ کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں جو انسانیت کے خون سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں صرف اِس لیے کہ ان کے اپنے اقتدار کو عروج ملے،یہ کیسے لیڈر ہیں جو بیرونِ ممالک میں بیٹھ کر ملک میں نفرت کا بیج بوتے ہیں۔ کون ہیں یہ پڑھے لکھے لوگ جو اپنے مفاد کی خاطر اللہ کے گھر میں خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے….‘‘
’’راجہ راجہ دیکھ بیٹا، ہر اچھائی کے ساتھ ایک برائی بھی ہوتی ہے، تاریکی کے ساتھ اجالا بھی آتا ہے…. حقیقت کی دنیا میں بہت سی تلخیاں ہیں، بہت سی سچائیاں ہیں جو ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آتی ہیں..اخبارات والے ان سچائیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کا سچ ہے‘‘
’’…. اور وہ ….. وہ جو سکولوں کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے، کیا وہ سچ نہیں؟ وہ اتحام اتفاق نظم وضبط کیا وہ صرف کتابی باتیں ہیں؟ کیا وہ سب باتیں اِن پڑھے لکھے عقل کے اندھوں کے سامنے حرفِ گناہ ہیں جسے یہ لوگ مٹانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’جو سکول کی کتابوں میں ہے وہ حقیقت سے جدا ہے راجہ!!‘‘
’’تو پھرخداکے لیے بزرگو! خدا کے لیے اپنے بچوں کو گڑ میں بھرکرزہر مت کھلاؤ، مت کرو ان کے معصوم ذہنوں کی تباہی.. انہیں سچ سچ بتا دو یہاں پر کوئی اتفاق نہیں ہم سب بکھری ہوئی قوم کے بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ ہماری شناخت پاکستانی کی نہیں بلکہ سندھی بلوچی پنجابی پٹھان سے ہوتی ہے، اردو ہماری زبان نہیں بلکہ اردو بولنے والوں کو ہم مہاجر کہتے ہیں،اور مہاجروں سے ہمیں نفرت ہے، ہمیں پنجابیوں سے نفرت ہے کہ وہ ہمارا پانی روکتے ہیں، ہمیں سندھیوں سے نفرت ہے ، ہمیں پٹھانوں سے نفرت ہے ہماری رگوں میں نفرت بھری ہوئی ہے…. خدا کے لیے اپنے سکولوں میں اخوّت کا جھوٹاسبق مت دو، مت دو‘خداکے لیے مجھے ایک ان پڑھ جاہل،بدمعاش راجہ ہی رہنے دو تاکہ میں اِس تلخ سچائی کاسامنہ نہ کرسکوں، میرا بھرم قائم رہنے دو کہ قائد بستی کے سبھی لوگ ایک ہیں، ایک ہیں، ایک ہیں!!‘‘
بستی میں شور ہے کہ کوئی بیرونی سازشی ٹولہ آگیا ہے اور وہ لسانی فسادات کروا رہا ہے۔ راجہ کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے….لیکن آج راجہ وہ راجہ نہیں تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو دھتکارتا ہوا بولا:
’’میری اور تمہاری ذاتوں میں فرق ہے، رنگ میں فرق ہے، زبانوں میں فرق، میں تمہارا ساتھ کیوں دوں؟ میں پڑھا لکھا انسان، تم سب کے سب جاہل، جاؤ جا کر علم حاصل کروتمہیں پتہ چل جائے گا تمہیں کس کا ساتھ دینا ہے‘‘
ایسے میں راجہ کے دوست داخل ہوتے ہیں، ایک پنجابی، ایک سندھی، ایک پختون ایک بلوچی… سبھی راجہ کا یہ انداز دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایک ہمت کرکے راجہ سے کہتاہے:
’’ماڑا ہم کسی کو یہاں سندھودیش کا نعرہ نہیں لگانے دیں گے نا، یہ دیش قائدبستی ہماری بستی ہے ناہم اِس پر اپنی جان واریں گے نا‘‘
’’اوہ راجہ !تو اِک واری سانوں حکم تے کر‘اسیس اپنی قائدبستی وال اٹھن آلی ہر اَکھ کڈ دیئے‘‘
’’اوراجہ، ہم نے اِس قائد بستی کے لیے قربانی دی ہے، ماقسم جب تک جسم میں خون کا قطرہ ہے اِس کی حفاظت کریں گے‘‘
’’راجہ ہم نے تو سدا تمہیں اپنا لیڈر دیکھا ہے رے، تو ہمارا جھنڈا پکڑ، ہم ساری دنیا کو ہرادیویں، آزما تو سہی‘‘
راجہ نے جھکا ہوا سر اٹھایا اور دیکھا تو کیاپنجابی ،کیاسندھی، کیاپختون، کیا بلوچی، کیا افغانی ہرکوئی اپنی قائدبستی پر اپنی جان کے نذرانے دینے کو تیار تھا، سروں پرکفن باندھے ہرمشکل سے گزرنے کو تیار! راجہ نے بزرگ کی طرف دیکھا تو انکے چہرے پر ایک اعتماد کی لہر تھی،بولتی ہوئی آنکھوں میں ہمیشہ کی شفت، گویا وہ کہہ رہی ہوں:
’’راجہ!تعلیم انسان کو انسان ہی نہیں اشراف المخلوقات بناتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اِس تعلیم کا صحیح استعمال کیا جائے۔ وہ بھی ایک تعلیم یافتہ انسان ہے جس نے فخش مضمون لکھا اور وہ بھی ایک تعلیم یافتہ انسان ہے جس نے دو الفاظ کسی کو سمجھادیئے، فرق صرف اتنا ہے: پہلا انسانیت کا بھیانک روپ ہے اور دوسرا اشرف المخلوقات!‘‘
عزیزانِ پیغام! تعلیم کو صرف حاصل ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اِسے صحیح معنوں میں پھیلانا بھی چاہیے۔اچھا اچھا علم حاصل کرنا چاہیے چاہے کتنی ہی تردد نہ کرنی پڑی!میراپیغام یہ ہے کہ تعلیم سے ہمیں ہماری پہچان ہوتی ہے، لیکن ہماری پہچان اُس اتفاق، اتحاد اور نظم و ضبط میں ہے جس کے بغیر ہم ریت کے وہ دیوارہیں جسے دشمن پھونکوں سے اُڑا دے!اپنی صفوں میں اِس طرح پیوستہ ہوجائیے کہ طوفان بھی ٹکرائے تو پاش پاش ہوجائے…..
Raja Pakistani
بقلم: مسعود
Add Comment