بھیگی ہوئی آنکھوں کا
غزل
بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا
گھر چھوڑ کے نہ جاؤ کہیں گھر نہ ملے گا
پھر یاد بہت آئی گی زلفوں کی گھنی شام
جب دھوپ میں سایہ نہ کوئی سر پے ملے گا
آنسو کو کبھی اس کا قطرہ نہ سمجھنا
ایسا تمہیں چاہت کا سمندر نہ ملے گا
اس خواب کے ماحول میں بے خواب ہیں آنکھیں
بازار میں ایسا کوئی زیور نہ ملے گا
یہ سوچ کو اب آخری سایہ ہے محبت
اس در سے اٹھو گے تو کوئی در نہ ملے گا
شاعر: ؟؟
ساری دنیا گھوم آؤ جو سکون تمہیں میری بانہوں میں ملے گا وہ کہیں اور نہیں ملے گا۔ یہ میری آنکھوں میں قطرے ساجن نہ ملیں گے، کوئی تیرے دکھ میں نہیں روئے گا، یہ میری زلفوں کی شام، میرے چہرے کا اجالا ہے تیرے لیے بیکل ہے، جب الم زدہ دن، کرب بھری راتیں ستائیں گی، چاند کی چاندنی بھی چبھے گی، سورج کی کرنیں جلائیں گی تو تمہیں میری ہی زلفوں کی گھنی شام یاد آئے گی۔ میری چتون کا ایک ایک قطرہ تمہارے لیے چاہت کا ایک بیکراں سمندر ہے جاناں، مجھے سیم تو زر کی زیورات نہیں چاہیے بس ان بے خواب آنکھوں کے سپنے ہی زیور انمول ہے۔ یہ سوچ لو ساجن تیرے لیے میری محبت کا سمندر بحرِ بیکراں ہے اس محبت کو ٹھکرا گئے تو تمہیں کہیں محبت کا در نہ ملے گا۔۔۔
Add Comment