گلدستۂ غزل

کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی

کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی
کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی

کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو، تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

شاعر:پروین شاکر

کچھ باتیں لاکھ چھپانے کے باوجود نہیں چھپائی جاسکتیں! وہ ہوا کے دوش پر گوش بگوش ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بات تیری شناسائی کی ہے۔ وہ شناسائی جو شاید مجھ سے نہ تھی۔ مگر میں ایک ایسی  بدگمانی میں مبتلا تھی کہ اس نے میری پذیرائی ایسے کی جیسے گل کی پذیرائی خوشبوکرتی ہے۔ عجیب بدگمانی! میں یہ بات کیسے کہہ دوں کہ اس نے مجھے چھوڑدیا ہے۔ اس نے اپنے راستے جدا کر لیے۔ ایک ایسے رشتے کو نبھانے کی بجائے جو ایک ائیڈئیل رشتہ ہو سکتا تھا، اس نے نجانے کس کی خاطر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ میں پل پل تیری راہیں تکتی تھی ، تیرے پیار کے لیے اپنی ہر آرزور کا گلا گھونٹ لیا! ہر زہر پی لیا! ہر تکلیف برداشت کر لی! اپنے ہر ممکنہ کوشش کے باوجود تم نے مجھ سے رشتہ توڑ لیا۔ میں یہ بات کیسے کہہ دوں کہ اس میں میرے لیے رسوائی ہے! بدنامی ہے! تہمت ہے! مگر کیا کروں سچی بات ہے اور سچ کو ٹالا نہیں جاسکتا!

وہ کس لطف کی تلاش میں کدھرکدھرگیا میں نہیں جانتی۔ میں جانتی ہوں تو فقط یہی ایک بات کہ وہ جہاں سے بھی لوٹ کے آیا، آیا تو میرے ہی پاس۔ ہربھٹکی ہوئی راہ کی منزل پر اسے میں ہی ملی۔ ہر گمنام راستے سے جہاں واپسی کا رستہ کھو جائے، اسکے لیے میں ہی ڈھال بنی – بس یہی ایک بات اچھی تھی کہ وہ تھک ہار کے میرے ہی پاس آیا۔ پر وہ کیا جانے کہ اس کے اس بھٹکے ہوئے سفر میں مجھ پر شبِ تنہائی کی تلخ اور تاریک راتوں میں کیا گزرتی تھی۔ جس اس بات کے احساس سےکہ تو کہاں ہوگا قلب اور دماغ کے شریان پھٹنے والے ہوتے تھے اس روح تڑپاتی تکلیف کو برداشت کیا پر دعا کی کہ تیرا پہلو تیرے دل کی طرح آباد ہی رہے۔ تجھے وہ راحت نصیب ہو جسکی طلب تجھے مجھ سے بیوفائی پر اکساتی رہی۔

کبھی میں خودسے بے سدھ ہوکر گرپڑتی تو تجھے میری محبت کا احساس ہوتا اور تیرا ایک ہاتھ جو میری پیشانی کو پیار سے چھولیتا وہی میرے لیے امرت ہوتا۔ یہ احساس میری روح کو مسیحائی کی تاثیر سے دوچارکر دیتا۔ یوں لگتا کہ صدیوں کی بیماری کے بعد مسیحا کی ایک نظرِ کرم پڑی اور میرے مشکلات حل ہوگئیں۔ اسقدرتاثیرہوتی تیرے ہاتھ کے چھونے سے۔ یہی وہ تاثیر ہے جو آج بھی برسات کی رم جھم میں مجھے دلہن بننے کی آرزو میں مبتلا کر دیتی ہے کہ دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ تیری سیج سجی ہو اور میں اس پر تیری من پسند دلہن بن کر ایسی انگڑائی لوں کہ بدن ٹوٹ جائے! پر یہ میری انجان سی خواہشیں ہیں – معصوم سی – بیدوش سی۔ سچ تو یہ ہے کہ کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے – بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!

تبصرہ مسعود

کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی 


کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW