گلدستۂ غزل

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے
صاف ظاہر ہے نگاہوں سے

غزل

  صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ وہ ہم پرمرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں

اِک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بڑھتے ہیں

عشرتِ رفتہ نے جا کر کیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

آسمان سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
اب یہ حالات ہیں کہ ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں

شعر کہتے ہو بہت خوب تم اخترؔ لیکن
اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں

شاعر: اخترشیرانی

چھپی چھپی سی مسکان، ہلکی ہلکی شرارت، کبھی دیکھ کر مسکرا دینا، کبھی مسکرا کر دیکھ لینا، دل میں اظہارِ محبت، ہونٹوں پر خوفِ دنیا، نہ اظہار نہ اقرار، یہ عہدِ جوانی کی تصویریں، یہ محبت کی تعزیراں، خوںِ جگر، اُدھر اِدھر، ماضی کی باتیں، باتوں کیا حسرتیں، یادیں، اذیتیں، انجانی خوشیاں انجانے دکھ، ایک جملہ محبت کیا کہدو، ہر طرف کیدو ہی کیدو، جہاں دشمن، آسمان دشمن، اندر ہی اندر، دھڑکن بھی مکدر، ہنسی ختم، شُتم ہی شُتم، اچھی باتیں، ویران راتیں۔۔

اردوشاعری

lgourdu


logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW