تم نے مجھے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
ہم ہی انہی کو بام پر لائے اور ہم ہی محروم رہے
پردہ ہمارے نام سے اُٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے
عشقِ بتاں میں کیا کہیے کہ ہر چہرہ اُن جیسا تھا
ہم تو اُن کو بھول چکے تھے یاد دلائی لوگوں نے
لوگوں کا احسان ہے مجھ پر اور ترا بھی میں شکر گزار
تیرِ نظر سے تو نے مارا لاش اُٹھائی لوگوں نے
میرے سرخ لہو سے چمکی جانے کتنے ہاتھوں میں مہندی
شہر میں جس دِن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے
شاعر:
عشق میں کیا کیا مرے جنوں کی، کی نہ بُرائی لوگوں نے
تو تم بھی اپنے دل میں میری جانب سے غبار لے ہی آئی؟ اور تم نے بھی مجھے بدنام کیا، لوگوں کا کیا ہےوہ تو جلتی پر تیل ڈالتے ہیں وہ انہوں نے خوب ڈالا، مگر تم نے بھی انہیں خوب موقع دیا۔
مگرکبھی شبِ تنہائی میں بیٹھ کر فکر و بچار تو کرنا کہ تمہیں بام و در پر کون لایا؟ تمہیں عروج پر کون لایا؟ تمہارے انگ انگ پر میرا نام لکھا تھا اور میں ہی محروم رھا – تم سے تمہاری محبت سے۔۔
اب تو عشق و محبت، لیلیٰ مجنوں، ہیررانجھا، سسی پنوں، شیریں فرہاد، مرزاصاحباں سب کے سب بھول گئے ہمیں جو بھی یاد دلائی لوگوں نے جو تم سے آشنا تھے، شاید یہ آخری حملہ تھا میری ناکامِ وفاؤں پر کہ تم نے گھائل کیا اورانہیں لوگوں نے میرا لاشہ دفنا دیا، پر دیکھو تو سہی یہ میرا ہی لہو ہے نا جو شہربھر کے ہاتھوں پر نظر آ رہا ہے؟ تو پھر جشن کیسا؟
Add Comment