بزمِ سخن گلدستۂ غزل

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تیری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے

لمَس کے دم سے بصارت بھی ،بصیرت بھی ملی
چھو کے دیکھا تو جو پتّھر تھے، نِرے ریشم تھے

تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے

برف گرماتی رہی، دُھوپ اماں دیتی رہی
دل کی نگری میں جو موسم تھے، تیرے موسم تھے

میری پونجی میرے اپنے ہی لہوُ کی تھی کشید
زندگی بھر کی کمائی میرے اپنے غم تھے

آنسوؤں نے عجب انداز میں سیراب کیا
کہیں بھیگے ہوُئے دامن، کہیں باطن نَم تھے

جن کے دامن کی ہَوا میرے چراغوں پہ چلی
وہ کوئی اور کہاں تھے، وہ میرے ہمدم تھے

مَیں نے پایا تھا بس اتنا ہی حقیقت کا سراغ
دُور تک پھَیلتے خاکے تھے، مگر مُبہم تھے

مَیں نے گرنے نہ دیا، مر کے بھی، معیارِ وقار
ڈوبتے وقت میرے ہاتھ، میرے پرچم تھے

مَیں سرِ عرش بھی پہنچا تو سرِ فرش رہا
کائناتوں کے سب امکاں میرے اندر ضَم تھے

عُمر بھر خاک میں جو اشک ہوُئے جذب ندیم
برگِ گُل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے

شاعر:  احمد ندیم قاسمی

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

ایسے چپ چپ رہنے والی اظہارِ محبت سے بے بہرہ لڑکی جب تیرے دل کو محسوس کیا تو ہمارے سوا اس میں کچھ نہ تھا،  رویے کی سختی بھی ریشم کی طرح تھی جب چھو کر محسوس کیا تو سراپا حساس تھی، میری گھر کی خاموشیوں میں تیری یادیں اٹکھلیاں کرتی لڑکیوں کی طرح کبھی ہنستی کبھی روتی میرے گھر کی رونق تھیں۔

ہر موسم تم سے وابستہ تھا،  تم تو سراپا خوشی تھی مگر تمامترغم میرے ہی تراشیدہ تھے، یہی میرے اثاثہ تھے، رویا تو کبھی دامن کو کبھی باطن کو بگھو لیا، کیا بتاتا کہ میرے چراغ گل میرے اپنوں سے ہوئے، جب جب غور کیا دور تک روشنی تھی اور حقائق چھپے ہوئے تھے، ذرا دیکھ تو میرے حوصلے کومیرا نام و نشاں مٹ گیا مگر میں نے غلط بات کو قبول نہ کیا، جب جب عروج آیا میں نے خود کو اس میں رسوا نہ ہونے دیا،  پھول کی پتیوں پر پڑے جو بھی قطرے تھے وہی میرے اشک تھے۔

 

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW