مرنے والا ہے بیمارِ حسرت
.غزل
[spacer size=”10″]
مرنے والا ہے بیمارِحسرت ، اب کہا مان جا حسن والے
دیکھ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہےاب تو چہرے سے پردہ ہٹا لے
چین پائے تو کس طرح پائے دل سنبھالے تو کیسے سنبھالے
جس کا دل پڑ گیا ہو ستمگر تیری کافر اداؤں کے پالے
کوئی دیکھے تو کس کشمکش میں آج بیمارِ الفت ہے ان کا
آج ہی موت ہے آنے والی آج وہ بھی ہیں آنے والے
بعد مرنے کے میری لحد پر جانے کیا سوچ کے دل بھر آیا
آگئے اُن کی آنکھوں میں آنسو پھول جب میری تربت پہ ڈالے
پارسائی کا دعویٰ نہ کیجئے مجھ کو معلوم ہے شیخ صاحب
رات کو چھپ کے پیتے ہیں حضرت دن کو بنتے ہیں اللہ والے
[spacer]
(اگر آپ کو شاعر کا نام معلوم ہے تو کامنٹ میں درج کیجیے)
مرنے والا ہے بیمارِ حسرت
Add Comment