بزمِ سخن گلدستۂ غزل

بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں

بن کے تصویرِ غم

بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں

.غزل

[spacer size=”10″]

بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لی سب نے آپس میں خوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
اب نہ اُٹھنا سرہانے سے میرے
اب تو گنتی کے دم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہرو ٹھہرو میں ہم رہ گئے
اے صبا ایک زحمت ذرا پھر
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں
دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت
دھنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
آسیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تم ایک ہم رہ گئے ہیں
آج ساقی پلا شیخ کو بھی
ایک یہ محترم رہ گئے ہیں
اللہ اللہ یہ کس کی گلی ہے
اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں

[spacer]

 

logo

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW