Asool
انتظار سے بھر زندگی مجھے قبول ہے
میرا وجود میرے غمخوار قدرت کی بھول ہے
جس منزل پہ پہنچ کر مسافر پلٹ جائے
اس منزل سے بہتر پاؤں کی دھول ہے
دنیا کے گلشن میں ہر پھول مسکرا رہا ہے
جو کبھی کھل نہ سکا ہو میرا دل وہ پھول ہے
میں نے سنا ہے مسعودؔ سے کہ دنیا نے کہا
’اپاہنجوں کا اس دنیا میں جینا فضول ہے‘
حق نے جب پوچھا روزِ محشر پہ عذاب کا
چپکے سے زندگی کہہ دونگا کہ یہ نام معقول ہے
یہ تنہائیاں ہی تیری زندگی کا حاصل ہیں مسعودؔ
انہیں دل سے لگاکرجی لو، یہ پیار کا محصول ہے
تجھے سمجھایا تھا میں نے کہ دنیا کے بازار میں
ہر چیز پہ سُود مانگنا، سوداگروں کا اصول ہے
Asool
Add Comment