بزمِ سخن گلدستۂ غزل

مرنے والا ہے بیمارِ حسرت

مرنے والا ہے بیمارِ

مرنے والا ہے بیمارِ حسرت

.غزل

[spacer size=”10″]

مرنے والا ہے بیمارِحسرت ، اب کہا مان جا حسن والے

دیکھ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہےاب تو چہرے سے پردہ ہٹا لے

چین پائے تو کس طرح پائے دل سنبھالے تو کیسے سنبھالے

جس کا دل پڑ گیا ہو ستمگر تیری کافر اداؤں کے پالے

کوئی دیکھے تو کس کشمکش میں آج بیمارِ الفت ہے ان کا

آج ہی موت ہے آنے والی آج وہ بھی ہیں آنے والے

بعد مرنے کے میری لحد پر جانے کیا سوچ کے دل بھر آیا

آگئے اُن کی آنکھوں میں آنسو پھول جب میری تربت پہ ڈالے

پارسائی کا دعویٰ نہ کیجئے مجھ کو معلوم ہے شیخ صاحب

رات کو چھپ کے پیتے ہیں حضرت دن کو بنتے ہیں اللہ والے

[spacer]

(اگر آپ کو شاعر کا نام معلوم ہے تو کامنٹ میں درج کیجیے)

مرنے والا ہے بیمارِ حسرت

logo

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW