ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر اب تو مدت سے راہ و رسمِ نظارہ بند ہے ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج شاعر: ساغرؔ صدیقی
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہرسفینے کا محافظ ، ناخدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغر رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
Add Comment