ساغرصدیقی گلدستۂ غزل

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
 ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

 جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
 حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں

 اب تو مدت سے راہ و رسمِ نظارہ بند ہے
 اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
 ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہرسفینے کا محافظ ، ناخدا ہوتا نہیں
 بارہا دیکھا ہے ساغر رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

 

شاعر: ساغرؔ صدیقی


lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW