درد رکتا نہیں ایک پل بھی عشق کی یہ سزا مل رہی ہے
موت سے پہلے ہی مر گئے ہم چوٹ نظروں کی ایسی لگی ہے
بیوفا اتنا احسان کر دے کم سے کم عشق کی لاج رکھ لے
دو قدم چل کے کاندھا تو دیدے تیرے عاشق کی میت اٹھی ہے
رات کٹتی ہے گن گن کے تارے نیند آتی نہیں ایک پل بھی
آنکھ لگتی نہیں اب ہماری آنکھ اس بت سے ایسی لگی ہے
اس قدر میرے دل کو نچوڑا ایک قطرہ لہو کا نہ چھوڑا
جگمگاتی ہے جو ان کی خلوت وہ میرے خون کی روشنی ہے
لڑکھڑاتا ہوا جب بھی نازاں ان کی رنگین محفل میں پہنچا
دیکھ کر مجھ کو لوگوں سے بولے یہ وہی بیوفا آدمی ہے
شاعر:
درد رکتا نہیں ایک پل بھی
ہم نے بھی کیا سوچ رکھا تھا کہ ہم اور محبت؟ نہ بھائی نہ! ہم اس گورکھ دھندے میں نہیں پڑنے والے۔
مگر ہائے وہ نظر! کیا نظر تھی کہ ایک ہی نظر میں ایسا وار کر گئی کہ تن من دھن کی ہوش نہ رہی!
ایسا دل پہ وار کیا ہے ہم موت سے پہلے ہی مرنے لگے – نہ چین کہیں نہ سکون!
اور یہ درد ہے کہ رکتا ہی نہیں صاحب! کیا عشق کی یہی سزا تھی؟
اور وہ بیوفا؟ اے بیوفا جاتی جاتی اتنا احسان تو کر دیتی کہ عشق کی لاج ہی رکھ لیتی!
نہ تن تیرا مانگا نہ من! نہ ہوس نہ لالچ! فقط یہ ایک تمنا تھی کہ اپنے عاشق نامراد کی میت کو دو
چار قدم کندھا ہی دے دیتی!بالآخر میں نے بھی تیرے عشق میں جان دی ہے!
پر تو کہاں اور میں کہاں؟ تیری زندگی پرسکون اور ہم ہیں کہ نہ راتوں کو چین نہ دن کو سکون!
ایک پل آنکھ کیا لگتی ہے کہ جب بھی آنکھ بند ہوتی ہے تیرابت سامنے ہوتا ہے!
ہائے وہ قد! وہ قامت! تیرا بت!
ایسا بیوفا بت کہ میرے دل کو چکی میں پیس کر خون کا قطرہ قطرہ نچوڑ کر اپنی
خلوتوں میں روشنی کرنے لگا، وہ چراغ جوتیرے در میں جلے میرے خون سے جلے!
تیرے درودیوار – میرے خون سے سجنے والے – جب میں وہاں جا ہی پہنچا
تو کیا کہتے ہو کہ یہ وہ بیوفا آدمی ہے؟ میں بیوفا؟ ہائے ری بیوفا!!!
درد رکتا نہیں ایک پل بھی
تبصرہ مسعود
درد رکتا نہیں ایک پل بھی
یہ خوبصورت غزل کس شاعر کی ہے ؟