گلدستۂ غزل

عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں

عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں
عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں

غزل

عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں، کس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
غم نے مارا ہے ہم کو اور ہم زندگی کے ستائے ہوئے ہیں

اے لحد اپنی مٹی سے کہہ دو، داغ لگنے نہ پائے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں

اُن کی تعریف کیا پوچھتے ہو، عمر ساری گناہوں میں گزری
پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے، جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیں

کیا ہے دستورِ دنیا خدارا، مرتے دم تک کسی نے نہ پوچھا
بعد مرنے کے میت کو میری لوگ سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں

اُس نے شادی کا جوڑا پہن کر صرف چوما تھا میرے کفن کو
بس اُسی دن سے جنت کی حوریں، مجھ کو دولہا بنائے ہوئے ہیں

کیا ہے انجامِ الفت پتنگو! آ کے شمع کے نزدیک دیکھو
کچھ پتنگوں کی لاشیں پڑی ہیں، پر کسی کے جلائے ہوئے ہیں

شاعر:

ہائے یہ عشق!

یہ امن و سکون کا دشمن! یہ تن من کو تڑپانے والا عشق! ہائے ہم تمہیں کیا بتائیں کہ اس عشق نے اس دل پر کیا وار کیا ہے۔ ہائے ایک پل سکون نہیں، پل پل تڑپ، پل پل جلن – بے خودی – بے سدھی!  غم ہی غم الم ہی الم! ایسا دکھ کہ زندگی بھی بوجھ لگ رہی ہے – ہائے عشق!

ہم عشق کے مارے ہوئے ہوئے شہزادے ہیں اے لحد، ہمارا لباس توھین عشق میں سنا ہوا ہے، اے لحد اس لباس کو داغ نہ لگے! شعر یاد آیا:

میری موت پریوں کے جھرمٹ میں ہو گی
جنازہ حسینوں کے کاندھوں پہ ہو گا
کفن میرا انکا دوپٹہ بنے گا
بڑی شان سے میری میت اٹھے گی

سو یہ کفن انکے دوپٹے سے بنا ہے اے لحد اپنی مٹی کو اس سے دور رکھنا۔۔۔ وہ جو ساری عمر ہمیں تڑپاتے رہے جلاتے رہے ترساتے رہے وہ خود کو عشق میں ایسا پارسا سمجھ بیٹھے ہیں کہ جیسے ان کے تن کے ایک ایک جز آبِ تاب میں نہایا ہوا ہے۔۔۔ مگر وہ عشق کا کافر! وہ عشق کا کناہگار! اسکی تعریف ہم سے پوچھ! عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں!

اے لحد تم نے دیکھا! دنیا کسقدر ہیچ ہے؟ تاعمر ہمیں گناہگارِ عشق کہہ کر نفرت کرتی رہ اور اب بعد از مرگ ہمی کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔ جنازہ حسینوں کے کاندھوں پر ہو گا۔۔۔ 

اے لحد تم نے دیکھا! وہ لاکھ کافرِ عشق ہے مگر اسکا ایک لمس! اسکا ایک بوسہ! اسکا ایک ٹچ نے حوروں کے دل میں وہ حسرت پیدا کر دی کہ حوریں ہمیں دولہا بنائے پھر رہی ہیں۔۔۔ ہائے وہ لمس! وہ بوسہ!

پیار! انجام الفت! فقط موت! اے لحد اپنی مٹی سے کہنا کہ ہم مقتولِ عشق ہیں اور عشق کا انجام ہی موت ہے – پروانوں کا بھی، دیوانوں کا بھی!

lgourdu

Ishq mein ham tumhein kya bataein, chot, gham, ghamgeen, urdu poetry, urdu shayeri, kafan, kaafir, lams


logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW