بزمِ سخن گلدستۂ غزل

شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی

nd

شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی – بہت حسین غزل ہے جسے ناھیداختر کے آواز نے اور لازوال بنا دیا ہے۔۔۔

شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی
ملا ہو جیسے صدیوں بعد کوئی
ہمیں اپنی سمجھ آتی نہیں خود
ہمیں کیا خاک سمجھائے گا کوئی
قرین منزل پہ آ کے دم ہے ٹوٹا
کہاں آ کر میری تقدیر سوئی
کچھ ایسے آج انکی یاد آئی
ملی ہو جیسے دولت ایک کھوئی
سجا رکھا قفس ہے خون و پر سے
کہ اب تو بجلیاں لے آئے کوئی

شاعر: 

شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی

تومسعودصاحب آپ ہمیں سمجھانے آئے ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمیں سمجھا سکتے ہیں؟ ہمیں خود اپنی سمجھ نہیں آتی ہمیں کون کیا سمجھا سکتا ہے؟ ہم نے محبت کے عروج و زوال دیکھ لیے ہم نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھ لیے اب ہمیں کوئی کچھ نہیں سمجھا سکتا، اب تو ہم راتوں کی تنہائی کو بھی ایسے گلے لگا کر ملتے ہیں جیسے ہمیں ہزاروں سال سے بچھڑا صنم سرِراہ مل گیا ہو،ہمیں تو انکی یاد ایسے آتی ہے جیسے قرون کا خزانہ مل جائے، مگر ہمارا نصیب دیکھو، جب بھی منزل سامنے آنے لگتی ہے ہمارے ہاتھ سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے، ہمارا دم وہاں ٹوٹتا ہے جب حدف دو گام رہ جاتا ہے۔ ایک ہی بار کہے دیتے ہیں قفس تیار ہے، خون دینے کو پر تیار ہیں اب کوئی ان پروں کو نوچ ڈالے، گرا دے بجلیاں جو گرا سکتا ہے۔۔۔

یہ حسین غزل حسن و آواز کی ملکہ ناھید اختر کے نام

[embedyt]https://www.youtube.com/watch?v=NNh0twHCu00[/embedyt]

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW