زیرِ لب یہ جو تبسم کا دیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں کتابِ جاں کے
اک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے جاگے سوئے
تم نے جادو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
یہ جو اک خواب ہے آنکھوں میں نہاں مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے
کیسے خوشبو کو بکھر جانے سے روکے کوئی
رزقِ غنچہ اس گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے
کب سے احباب جسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا رکھا ہے
یاد بھی آتا نہیں اب کہ گلے تھے کیا کیا
سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں امجدؔ
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے
شاعر: امجد اسلام امجدؔ
زیرِ لب یہ جو تبسم کا دیا رکھا ہے
یہ جو تم نے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ قائم کر رکھی ہے، کیا بات ہے کس غم کو چھپا رہے ہو؟ اپنے عہدو پیمان بھی نبھائے تو کچھ اس طرح جیسے بے جان کتابوں کے بے جان صفحے، کوئی تو وجہ ہے کوئی تو بات ہے کہ ہم جس طرف دیکھیں تم ہی تم نظر آتے ہو، یہ کیا جادو ہے جس سے آنکھوں میں ایک خواب چھپا ہے جسے دنیا سے چھپایا ہے، کبھی خوشبو کے سفر کو بھی کوئی روک سکا ہے؟ اس میں غنچوں کا رزق ہے، آآآآآہ ایک وقت تھا جب ہمارے گرد ہمارے دوست رواں دواں تھے آج اسی لو کو ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا ہے ، دن کی روشنی میں جب سب لوگ ہمارے گرد تھے رات کی سیاھی میں گم سم ہو گئے، کچھ یہی بتا دو کہ کیا گلہ تھا کیا شکوہ تھا ہمیں بھی بتاؤ کیوں سب کو باتوں میں لگا رکھا ہے؟ یادیں دل کی گہرائیوں میں گردش کرتی ہیں اور ان سے ہم نے اپنے دشتِ دل کو گلستان میں ڈھال دیا ہے
Add Comment