بزمِ سخن گلدستۂ غزل

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

داغِ دل ہم کو - daagh e dil hum ko

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

غزل

داغِ دِل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر ہی اُڑتے نشانے لگے
[spacer size=”30″]

شاعر: ؟

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

ایک عجب سے وہم وہ گمان میں زندگی پھنس چکی ہے کہ اپنا ہر اٹھایا ہوا قدم غیر یقینی سا لگنے لگا ہے، اپنے پاس کی شے اچھی لگنے لگی ہیں، جہاں کبھی اپنا مقام بنانے میں صدیاں لگیں وہاں ایک پل سے ایسے اٹھ کھڑے ہوئے کہ گویا جانتے ہی نہیں، یہ ہمارے دل کے داغ جلے ہیں کہ لوگوں کے دئیے جل اٹھے؟ ہمارے گھر کے چراغ سے کتنے گھروں میں اجالا ہو رہا ہے،  پر کیا کریں مسعود صاحب قسمت سے مفر ہو سکتا ہے؟ جہاں تیر لگنا ہو وہاں خود بخود قدم لے جاتے ہیں۔۔۔

فریدہ خانم کی زبانی۔۔

[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=a9qSbx__oQ0[/embedyt]

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW