عشق میں تیرے کوہِ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
صوفیانہ کلام
عیش و نشاطِ زندگی چھوڑ دیا جو ہَو سَو ہَو
جامِ فنا و بیخودی اب تو پیا جو ہَو سَو ہَو
ناز و ادا سے مسکرا، کہنے لگا جو ہَو سَو ہَو
صبح عدم ہوا نمود پاؤں اُٹھا جو ہَو سَو ہَو
[spacer size=”30″]
شاعر: حضرت نیاز احمد شاہ
عشق میں تیرے کوہِ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عشق! صبروسکوں کا دشمن! عشق عیش و عشرت کا دشمن! عشق! رات دن بیقرار ی کا نام،
جب عشق کی آگ لگتی ہے تو فرہاد اپنے سامنے پہاڑ بھی نہیں دیکھتا اور اس سے بھی دودھ کا چشمہ نکالنے کے لیے تیشہ اٹھا لیتا ہے،
عشق کی آگ وہ آگ ہے جس میں دل تپ کر خالص ہوتا ہے، وہ عشق چاہے مجازی ہو کہ حقیقی! عشق پہچان ہے چاہیے محبوب کی ہو یا خدا کی۔
جب اسکو کہا میں نے کہ دل ہجر کی مصیبتوں سے دوچار ہے تو وہ ظالم مسکرایا اور بولا: اب تو پیا جو ہو سو ہو۔۔۔
یہ وہ آگ تھی جس کی جلن نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا، سکھ چین نیند خواب عیش عشرت ہنسی مذاق – اب تو جو ہو سو ہو۔۔۔
آیئے عابدہ پروین سے سنتے ہیں۔۔۔
[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=XqPlIdUQUbM[/embedyt]
Add Comment