بزمِ سخن گلدستۂ غزل

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

کہوں یہ کیسے اِدھر دیکھ یا نہ دیکھ اُدھر
کہ درد درد ہے پھر بھی، نظر نظر ہے پھر بھی

جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی

شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی

پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکشِ جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی

خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی

تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اُتر گیا رگِ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی

اگرچہ بے خودئ عشق کو زمانہ ہوا
فراق کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی

[spacer size=”30″]

شاعر: فراق گورکھپوری

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW