بزمِ سخن گلدستۂ غزل

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں    –   غزل
[spacer]

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرہ ہے، سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شامِ غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر، تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی راستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تری آنکھیں

[spacer size=”30″]
شاعر: محسن نقوی
lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW