بزمِ سخن گلدستۂ غزل

یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

یہ کیا ستم ظریفی

یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

یہ کیا ستم ظریفئ فطرت ہے آج کل
بیگانگی شریک محبت ہے آج کل
غم ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے آج کل
دل ہے کہ سوگوار محبت ہے آج کل
تنہائی فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
میرے لیے سکوں بھی قیامت ہے آج کل
ہر سانس ترجمانِ غم دل ہے اِن دنوں
ہر آہ پردہ دارِ حکایت ہے آج کل
میری وفا ہی میرے لیے قہر بن گئی
اپنی جفا پہ اُن کو ندامت ہے آج کل
پھر چاہتا ہوں اک الم تازہ تر شکیلؔ
پھر دل کو جستجوئے مسرت ہے آج کل
[spacer size=”30″]

شاعرہ: شکیلؔ بدایونی

یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW