یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل
یہ کیا ستم ظریفئ فطرت ہے آج کل
بیگانگی شریک محبت ہے آج کل
غم ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے آج کل
دل ہے کہ سوگوار محبت ہے آج کل
تنہائی فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
میرے لیے سکوں بھی قیامت ہے آج کل
ہر سانس ترجمانِ غم دل ہے اِن دنوں
ہر آہ پردہ دارِ حکایت ہے آج کل
میری وفا ہی میرے لیے قہر بن گئی
اپنی جفا پہ اُن کو ندامت ہے آج کل
پھر چاہتا ہوں اک الم تازہ تر شکیلؔ
پھر دل کو جستجوئے مسرت ہے آج کل
بیگانگی شریک محبت ہے آج کل
غم ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے آج کل
دل ہے کہ سوگوار محبت ہے آج کل
تنہائی فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
میرے لیے سکوں بھی قیامت ہے آج کل
ہر سانس ترجمانِ غم دل ہے اِن دنوں
ہر آہ پردہ دارِ حکایت ہے آج کل
میری وفا ہی میرے لیے قہر بن گئی
اپنی جفا پہ اُن کو ندامت ہے آج کل
پھر چاہتا ہوں اک الم تازہ تر شکیلؔ
پھر دل کو جستجوئے مسرت ہے آج کل
[spacer size=”30″]
شاعرہ: شکیلؔ بدایونی
یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل
Add Comment