بزمِ سخن گلدستۂ غزل

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
Qayamat Hain Zalim Ki Neechi Nighaein

میری پسند: نہ رکتے ہیں آنسو

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
کہو کوئی کیسے محبت چھپا لے

کرے کیا کوئی وہ جو آئیں یکایک
نگاہوں کو روکے یا دل کو سنبھالے؟

چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے
غریبوں کے در پہ خطا پھونک ڈالے

قیامت ہے ظالم کی نیچی نگاہیں
خدا جانے کیا ہو جو نظریں اٹھا لے

کروں ایسا سجدہ وہ گھبرا کہہ دیں
خدا کے لیےا ب تو سر کو اٹھالے

تمہیں بندہ پرور ہم ہی جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے

بس اتنی سے دوری یہ میں ہوں یہ منزل
کہاں آکے پھوٹے ہیں بانہوں کے چھالے

قمر میں ہوں مختار تنظیمِ شب کا
نہ میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے

شاعر: قمرجلالوی

تم بیزار ہو کہ میرے آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے! جب بھی تم روبرو آتے ہو تو نالے ہیں کہ لب سے جاری ہو جاتے ہیں، پر تم کیا جانو کہ محبت میں پل بھر کی دوری کس قدر تکلیف دیتی ہے، ایسی تکلیف برداشت کرنا ایک ناکام دل ہی کا کام ہے۔ اب ایسے میں اگر تم اچانک سامنے آ جاؤ تو خود ہی بتاؤ کہ میں اپنے دل کو سنبھالوں یا تیرے ترسے ہوئے دیدار کی پیاسی آنکھوں کو روکوں؟  تمہاری دزدیدہ نگاہی تو ایسے ہی ہے گویا چمن والوں کو بے قصور بجلیاں جلا دیں! یہ حال ہے جب تمہاری نگاہیں جھکی جھکی سی ہیں اب اور کیا قیامت ڈھاؤ گی اگر تم نگاہیں اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانک کر میرے دل کو ٹٹولو؟ ہماری محبت کی خودسری تم کیا جانو، ہم محبت کو عبادت بنا کر ایسا سجدہ بھی کر سکتے ہیں کہ تم خود ہی چیخ کر پکار اٹھو کہ خدارا اب ہم طرف بھی دیکھ لو! خدارا اب ہمیں مزید مضطرب نہ کرو! خدارا اب ہمیں پیاسا مت رکھو اور ہماری جانب سر اٹھا کر دیکھ لو!ہم پاگل ہیں۔ دیوانے ہیں۔ اور اس دیوانگی میں ہر شدت سے گزر جائیں۔ اور تم؟ تمہیں تو ہم خوب جانتے ہیں صاحب! تمہاری گلستانی کی کہانی اگر کہیں تو تو تم ہمارے لبوں پر اگلی رکھ کو چپ کرادو مگر اتنے سیدھے سادہ تم ہو نہیں!مگر ہمارے نصیب صاحب! کہاں آ کر ہماری کشتی ڈوبی کہ جہاں پانی ہی کم تھا! منزل تک پہنچتے پہنچے پاؤں چھلنی کرا لیے مگر عین منرل کے سامنے ہمت ساتھ چھوڑ گئی اور ہم ازل کے پیاسے پیاسے ہی رہے۔قمرؔؔ میں تو سمجھا تھا کہ رات کے اندھیرے میں اختیار میں لکھ دئیے گئے ہیں کیونکہ یہ اندھیرے ہی تو ہم نے دیکھے ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ اب ہمیں اتنا بھی اختیار نہیں کہ ہم اندھیروں سے آشنائی کر لیں! 

تبصرہ: مسعود


lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Pegham Network Community

FREE
VIEW