Waqt
وقت زخم بھی ہے اور وقت مرہم بھی وقت خوشی بھی ہے اور وقت غم بھی وقت سہارا بھی ہے اور وقت تنہائی بھی وقت اپنا بھی ہے اور وقت پرایا بھی وقت کے ساتھ زخموں کے منہ بھی بھر جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ دلوں کے روگ بھی مدہم ہوتے ہیں۔ Waqt Waqt Waqt
وقت ہمیں ضائع کررہا ہے
اکثر سننے میں آتا ہے کہ ہم وقت کو ضائع کررہے ہیں۔ درحقیقت ہم وقت کو نہیں بلکہ وقت ہمیں ضائع کررہا ہے۔
انسان دن بدن ناکارہ ہوتا جا رہا ہے، انسان کی جگہ پرزوں نے لے لی ہے۔ہم آج کے وقت میں انہیں پرزوں (جن میں کمپیوٹر بھی شامل ہے)کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔
وہ اپنائیت، وہ چاہت، وہ ہمسائیگی، وہ بھائی چارہ، وہ دکھ سکھ کی کہانیاں، وہ اونچ نیچ میں مل بیٹھنا، وہ شام کے وقت یارلوگوں کی محفلیں، وہ سہیلیوں کی جھرمٹیں،وہ ماں باپ کی خدمتیں، وہ بہن بھائیوں کا شوروغل، وہ درّوں، سراؤں، بیٹھکوں، گلیوں، دکانوں میں بحثیں سب غارت ہوتی جارہی ہیں۔
اب تو جسے دیکھوپرزوں کے سامنے منجمد ہے۔کوئی ٹی وی کے آگے، کوئی سیٹلائٹ کے آگے، کوئی وی سی آر یا ڈی وی ڈی لگائے تو کوئی کانوں میں والک مین ٹھونسیں، کوئی موبائل پر باتیں کرتا اور کوئی کمپیوٹر پر بیٹھا نظرآئے گا: Waqt Waqt Waq
اِنسان نے وقت کو وہ ترقی دی ہے کہ وقت نے جواباً انسان کو ضائع کردیا ہے۔ Waqt Waqt Waq
بے برکتی
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ قیامت سے پہلے وقت اِس طرح تیزرفتاری سے گزرے گا کہ سال مہینوں کے برابر، مہینے گھنٹوں کے برابر اور گھنٹے ایک چنگاری کے برابر ہوجائیں گے۔ آج ہم وقت کے اِسی دور میں ہیں، ہفتے کا آغاز ہوتا نہیں کہ ختم ہوجاتا ہے۔۲۰۰۵ کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا؟ Waqt Waqt Waq
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمارے رزق میں برکت ڈال دے، اللہ تعالیٰ ہماری دعا سنتے ہیں اور ہمارے رزق میں برکت ہوتی ہے۔تھوڑے سے رزق سے سارا خاندان سیر ہوجاتا ہے۔ہم دعامانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیسہ میں برکت دے تو کم پیسہ بہت ہو جاتا ہے۔یہی وہ برکت ہے جو وقت میں سے اٹھالی گئی ہے اور اِسی وجہ سے بہت سا وقت بھی ہمیں کم لگتا ہے۔ Waqt Waqt Waq
ہم گھنٹوں بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں مگر نیند ندارد ہوتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے وقت میں برکت مانگیں تو چند لمحوں کی نیند کافی ہوتی ہے۔
ہمارے روزوشب ایسے کاموں میں مصروف رہنے لگے ہیں جن میں اللہ کی برکت نہیں ہوتی۔ عموماً ہمارےسبھی کام ہوجاتے ہیں مگر کیا ہمارے کاموں میں برکت بھی ہے؟ شاید نہیں! اور یہی وہ برکت ہے جو وقت میں سے نکال دی گئی ہےاور تین سو پینسٹھ دنوں کا طویل سال بھی ایک لمحہ مانند تصور ہوتا ہے جوآیا اور گیا۔
آج انسانوں کی عمریں اوسطاً 65سال ہمارے ممالک میں اور یورپ میں اکثر 75-80سال کی ہوتی ہیں۔
مگر اِس عمر کا مصنف آج وہ کچھ نہیں لکھ سکتا جوامام غزالی ؒ نے اپنی صرف پچپن برس کی عمر میں لکھا ہے۔ امام صاحب نے اتنی تصانیف چھوڑی ہیں کہ انہیں پڑھنے کے لیے ساٹھ سال کی عمر درکا رہے۔امام غزالی ؒ کے کام میں برکت تھی اور انہیں پچپن سال کافی تھے۔ ہمارے وقت میں یہ برکتیں اٹھالی گئی ہیں۔
وقت کے ساتھ
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ یہ تو ایک بحث طلب بات ہے کہ چلنا چاہیے کہ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم ایک ایسے وقت میں پہنچ چکے ہیں جہاں وقت کی قدر نہ کرنے والا بہت پیچھے رہ جاتا۔آج ہمارے اندرونی حالات اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اہل اسلام نے وقت کی قدر نہیں کی اور آج ہم ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔
ہم آج بھی وقت کی رسوائی کررہے ہیں مگر درحقیقت وقت ہمیں نست سے نابودکر رہا ہے۔
ہماری بیداری کا وقت ناجانے کب آئے گا؟ اور اگر ہم آج اگر بیدار ہوتے بھی ہیں تو ہمیں اپنا کھویا ہوا وقت بحال کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہوگالیکن جتنی جلدی ہوآغازہونا چاہیے۔
دنیا میں کسی اور جگہ وقت کا ساتھ دیا جائے یا نہ دیا جائے ہمارے صدر صاحب کے ارادوں سے تو لگتا ہے کہ ہم کھوئے ہوئے وقت کی بحالی چاہتے ہیں۔
مگر جو بحالی وہ کررہے ہیں وہ شاید وقت کے ساتھ چلنے کی انہیں بحالی تو دے مگر وہ ایک قوم کی خودی کی موت کا آغاز ہے!
ہم شاید ابھی تک وقت اور وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکے!!!
مسعود / کوپن ہیگن
Add Comment