Meri Tehreerein Shab-o-Roz

Bolo Ji Tum Kya Kya Kharidoge

Bolo Ji Tum Kya Kya Kharidoge
Bolo Ji Tum Kya Kya Kharidoge

منڈی اپنے عروج پر ہے۔    ہر طرف ایک بازار گرم ہے جہاں بیچنے والے بیچتے چلے جارہے ہیں اور خریدنے والے خریدتے۔  قیمتوں کا بھاؤ  ہوتا ہے اور ہر چیز بِک جاتی ہے۔  نہ بیچنے والے کو فکر ہے کہ خریدنے والے کے پیسے حلال کے ہیں کہ حرام کے اور نہ ہی خریدنے والے کو اس بات کی فکر ہے کہ مال قانونی ہے یا غیر قانونی۔  من کی پسند کا سودا ہوتا ہے اور چیزیں بِک جاتی ہیں۔ نہ مہنگائی کی پروا رہتی ہے نہ کوالٹی کی۔جو جتنی مہنگی شے خریدتا ہے وہ اتنا بلند اسٹیٹس کا ماناجاتا ہے۔

نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اِس منڈی کی تجارت پر کبھی زوال نہیں آیابلکہ دِن بدن منڈی کی رونق بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تاجروں کی توجہ اس منڈی میں جذب رکھنے کے لیے نئے نئے اقدام کیے جارہے ہیں۔ اِس منڈی میں انسانوں کی بھیڑ ہے مگر حسرتیں صرف دھن وانوں کی پوری ہوتی ہیں۔

میں ابھی ایک جانب کھڑااِس منڈی کا جائزہ لے رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں۔  لباس سے میں بھی کوئی تاجر لگتا ہوں اور کوئی بہت بڑا سودہ کرنے کے نیت سے منڈی میں داخل ہوتا ہوں، ہرجانب سے ایک ہی صدا سنائی دے رہی ہے:

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

ایک ہال پر میری نظر پڑتی ہے۔ میں اُس سمت چل دیتا ہوں۔ اندر بہت بڑی محفل لگی ہے، کوئی بڑا ٹیلیوژن ادارہ ایک فنکشن کروارہا ہے۔ اسٹیج پر فنکار آتے ہیں ، اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پردے کے پیچھے غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر گائیگی کے پہلے انداز میں اور اب کے انداز میں بہت فرق ہے۔ اب تو ہر اسٹیپ پر، ہر اسٹیج پر، ہر ویڈیو میں نیم برہنہ لڑکیوں کا ناچ لازمی ہے، ورنہ گانے میں کشش نہیں رہتی۔ اسٹیج پر بھی بہت سے لڑکیاں اور لڑکے گائیک کے ساتھ اپنے اپنے رقص کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میری نظر حاضرین پر پڑتی ہے۔

چاروں طرف لڑکے اور لڑکیاں اپنی اپنی سیٹوں پر میوزک کی لے پر اپنے اپنے جسموں کو لہرارہے ہیں۔ کبھی یوں سرِ عام ناچنا کنجروں کا کام سمجھا جاتا تھا، آب معزز گھروں کے چشم وچراغ سرِعام محورقص نظر آتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے شریف زادیوں کو گھروں کی چار دیواریوں سے نکال کر ٹی وی شوزاور سوشل میڈیا پر لا کر نچوادیا ہے۔ اپنے سجے ہوئے جسموں کے مدوجزر دکھا کر عورت لائکس اور کامنٹ لیتی نظر آ رہی ہے۔

Bolo Ji Tum Kya Kya Kharidoge

اسٹیج پر اور فلموں میں عورت ناچے تو وہ طوائف، ٹی وی شوز میں اور ڈراموں میں عورت ناچے تو وہ فن کی خدمت کرنے والی شریف زادی! ٹک ٹاک پر عورت اپنا جسم لہرائے تو فنکارہ ، سوشل میڈیا پر اپنے فالوورز کو قابو رکھنے کے لیے طرح طرح کی تصویر لگانا بجا۔۔۔

واہ! – میں اسی سوچ میں تھا کہ کیا اب کنجروں کا کام شریف گھروں میں ہونے لگا ہے کہ مجھے اپنے کندھے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا، پیچھے مڑکردیکھا تو ایک بزرگ کھڑے مجھے دیکھ کر مسکرارہے تھےگویا انہوں نے میری سوچیں پڑھ لی ہوں۔ اُن کی مسکراہٹ مجھے ایک عجیب پیغام دے رہی تھی، جیسا وہ کہہ رہے ہوں کہ پیسہ ہر تو سب کو نچایا جاسکتا ہے – کیا طوائف کیا شریف زادی!

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

وہاں سے نکلتا ہوں اور چند قدم چلتا ہوں کہ ایک ہجوم پر نظرپڑتی ہے۔ لوگوں کے درمیان سے گھستا ہوامرکز میں پہنچتا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ چندنوجوانوں کی لاشیں پڑی ہیں۔

لگتا ہے کسی نے ان کے جسموں پر گولیوں کی بارش کی ہے۔ باتیں ہو رہی ہے کہ یہ شیعہ تھے اور سنیوں نے قتل کیاہے۔ قاتل بھاگ گئے ہیں اور پولیس ابھی تک نہیں پہنچی۔ میں وہاں سے آگے بڑھتا ہوں، درختوں کے ایک جھنڈ تلے ایک جیپ کھڑی نظرآتی ہے۔ اسکے پاس چندنوجوان ہاتھوں میں کلاشنکوفیں لیے کھڑے ہیں۔ شکل سے وہ کوئی کالج کے اسٹوڈنٹس نظر آتےہیں۔ اسی اثنا ایک کالے رنگ کی مرسیڈیزجس پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے، آتی ہے اور اُس جیپ کے پاس رکتی ہے۔  کالا شیشہ نیچے ہوتا ہے اور ایک بریف کیس نکلتا ہے جسے ایک نوجوان پکڑ لیتا ہے۔ مرسیڈیز چلی جاتی ہے اور جیپ بھی!

ابھی میں کھڑا یہ منطق سمجھنے کی کوشش کررہا ہوتا ہوں کہ جیپ کے سلنسر سے نکلنے والا دھواں مجھے یہ پیغام دیتا ہے  کہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی کارکنوں کا قتل کرنا پڑتا ہے ، بڑے مقصد کے حصول کے لیے چھوٹی قربانی دی جاتی ہے،  ایک طرف خود کا امن کا رکھوالا ثابت کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف بھتہ لیا جاتا ہے، انسانوں کو کاٹا جاتا ہے، ورنہ وزارتیں نہیں ملتیں۔

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

وزارتوں کی بھی تجارت ہوتی ہے۔ ایک لیڈراپنی کرسی چھوڑتا ہے تو دوسرا یوں تھام لیتا ہے گویا جانے والے سے خریدی ہو۔

امن بِکتا ہے، بدامنی بِکتی ہے، اصول بکتے ہیں، بے اصولیاں بکتی ہیں، سچ بکتا ہے، سچائی بکتی ہے، اس منڈی میں سب کچھ بکتا ہے!

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

میں اپنی سوچوں میں گم اِس منڈی میں قدم اٹھاتا جا رہا ہوں۔ دکانوں کا ایک تسلسل ہے۔ یہ میوزک مارکیٹ ہے۔ میوزک کی دکانوں نے کتابوں کی دکانوں کو ختم کردیاہے، کیونکہ ہم علم اور ہنر کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں کتابوں سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔

میں ایک دکان میں داخل ہوتا ہوں۔ ہزاروں کی تعداد میں سی ڈیز، ڈی وی ڈیز کا ذخیرہ ہے۔ یہ سب غیرملکی مال ہے۔ محبِ وطن پاکستانی پاکستانیت کا عویٰ تو کرے گامگر پاکستانی میوزک نہیں سنے گا، غیرملکی چاہے وہ پاکستانی میوزک کا چربہ ہی کیوں نہ ہو، اُسےسننا پھر بھی اپنے لیے فخر کا مقام سمجھے گا۔ دولباس میں لپٹی ہندوستانی حسیناؤں نے ہمارے نوجوانوں کے دماغوں کو مسخر کر لیا ہے۔ پہلے یہ عریانی فلموں تک محدود تھی اب میڈیا کی آزادی سے ہمارے چینلز پراشتہاروں کی صورت میں یہ چیز عام ہوتی جارہی ہے۔

جنگی میدان میں شاید ہم ہندوستان کو تحس نحس کر دیں، مگر اخلاقی میدان میں ہم تحس نحس ہو رہے ہیں۔ نیم عریاں کوردیکھ کر میرا دل پریشان ہوجاتاہے۔

اچانک میری نظر ایک ویڈیوکیسٹ پر پڑتی ہے۔ اسکا ٹائٹل دیکھ کر میرا مرجھایا ہوا ضمیرکِھل اٹھتا ہے کہ ابھی اتنا بھی اندھیرا نہیں چھایا۔ میں دکاندار سے کہتا ہوں کہ” مجھے قائداعظم کی تقریر والی کیسٹ دیجیے گا پلیز”– اچانک ایک سناٹا چھا جاتا ہے۔ دکان میں موجود ہر بندہ مجھے حیرت  اور دُزدیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے اور کھسیانی مسکراہٹ بکھیرتا ہے۔

دکاندار مجھے ایک سمت لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ “صاحب اس ویڈیوکیسٹ میں وہ کچھ نہیں جوآپ سمجھ رہے ہو”۔

پھر انگلیوں کے اشاروں سے بتاتا ہے کہ “خطرہ ہے”، “یہ کیسٹ ہمارے خاص گاہکوں کے لیے ہے”۔ انگلیوں کے اشاروں کو دیکھ کر میرے اندر ایک طوفان پھٹ پڑتا ہے۔ ایک لمحے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ابھی ابھی زمین پھٹے گی اور میں یعنی ایک پاکستانی سیدھا دوزخ میں جاپہنچے گا۔ یہ کیا ہورہا ہے میرے ملک میں؟ فحاشی کا پھیلاؤ اور وہ بھی سرِعام کہ نہ میں احتجاج کرتا ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا! پورن فلموں کا کاروبار سرعام!

جبکہ ہم سب گناہوں کی اس منڈی میں ہونے والے اخلاق سوز دھندےسے واقف ہیں! ہم سب جانتے ہیں کہ کیبل پر کیا کیا غلیظ فلمیں دکھائی جارہی ہیں،اسٹیج پر کیسی کیسی اخلاق سوز باتیں ہو رہی ہیں۔ اب تو ہمارے ٹیلیوژن ڈراموں میں بھی اخلاق سے گرے ہوئے اسباق دئیے جارہے ہیں۔ اسقدر کندذہنیت ڈرامہ نویسی میں کبھی پہلے نہ تھی جو اب ہے! ایک ہی تھیم پر سو سو ڈرامے اور وہ بھی انتہائی اخلاق سوز! پاکستانی ڈراموں کو دیکھکر ایک فکرمند دل کا درد لیے بغیر نہیں رہ سکتا!

کہاں ہیں وہ انا اور خودداری کے رکھوالے؟ وہ محبِ وطن پاکستانی؟  کہاں ہیں وہ نعرے مارتے ہوئے اسلام کے رکھوالے؟ جو ایک ذرا ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے لگتے ہیں؟ یوں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں گویا وہی اس کائنات کے مقدس اور پوتر ترین مخلوق ہیں!

مگر شاید اس منڈی میں آکر سب بک جاتا ہے ، ایمان بھی، اخلاق بھی، عزتِ نفس بھی اور حب الوطنی بھی!

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ میں ایک دیوار کے ساتھ جا ٹکراتا ہوں۔

ہوش آتی ہے تو ایک سرکاری ہسپتال کے ایک برآمدے میں بے سروسامان ملتا ہوں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ میں کون ہوں؟

ڈاکٹرناپید ہیں، جو ہیں وہ اپنے اپنے دھندوں میں مصروف! ہر سمت ایک آہ وزاری ہے ، کوئی فریادرس نہیں۔ ایک ایک ٹیکہ کئی کئی مریضوں کو لگایا جا رہا ہے، صفائی نہ ہونے کے برابر! دواؤں کا استعمال بکثرت ہے مگر افاقہ نہیں۔ جب دوائیں ہی ناکارہ ہوں گی تو شفاکہاں سے ملے گی؟

بولوجی تم کیا کیا خریدو گے؟؟

ہسپتال میں ایک طرف قطاریں لگی ہیں۔ یہ لوگ اپنا خون بیچ رہے ہیں۔

کوئی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے، کوئی اپنی غربت مٹانے کے لیے تو کوئی دوسری تمنائیں پوری کرنے کے لیے۔ میں انہیں دیکھ کر آگے بڑھتا ہوں۔ ایک جانب فٹ پاتھ پر ایک نجومی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ ایک طوطا انسان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پرچیاں نکالتا ہے اور اُس سے انسان کی تقدیر کا حال بتایا جاتا ہے۔! یقین کرنے والے کرتے ہیں۔

ابھی میں اس کے کرتب دیکھ ہی رہا ہوتا ہوں کہ کہیں سے ایک گولی چلتی ہےاور لمحہ بھر میں نجومی زمین پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اس کابہتا ہوا خون مجھے یہ پیغام دے رہا ہےکہ جو انسان خود یہ نہیں جانتا کہ اگلے لمحے اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے،وہ دوسروں کو اُن کی تقدیر اور مستقبل کا حال بتا رہا ہے۔۔۔۔ گویا تقدیر بھی بیچی جاتی ہے۔

تھوڑا آگے اسی فٹ پاتھ پر ایک محرر بیٹھا ہے۔یہاں تحریریں بیچی جاتی ہیں۔ میں اُس کے پاس جا بیٹھتا ہوں۔

کچھ دیر بعد جب اُسکی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو پوچھتا ہے!: “کہو بیٹاکس کو کیا لکھوانا ہے؟ میرے قلم میں وہ طاقت ہے کہ اگر جاب کی تلاش ہے! تو زبردست ایپلی کیشن لکھ کر دوں گا۔ اگر کسی کو محبت نامہ لکھوانا ہے تو بھی ایسا قلم چلاؤں گا!کہ محبوب پسیج جائے گا، ورنہ کہو تو اسے ایسا رسوا کروں! کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اگر جائداد کی سندیں بنوانی ہیں تو ایسی سند لکھ کر دونگاکہ کوئی اصل یا نقل میں فرق نہ کر سکے۔ میرے الفاظ میں جادو ہے بابو، بڑے بڑے سیاستدان ہم جیسوں سے تقریریں لکھواتے ہیں۔ یہ جو عوام کو الفاظ کے تانے بانے میں الجھائے رکھتے ہیں،یہ سب کے سب خریدے ہوئے الفاظ کا سہارا لینے والے ہیں۔ اگر یہ اپنے دل سے کچھ کہنے کے قابل ہوتے تو عوام پر ان کا اثر ہوتا، یہ سب بکاؤ الفاظ کا سہارا لیتے ہیں جبھی تو ان کی تقریروں میں اثر نہیں ہوتا”۔

“اخباروں کو دیکھ لو بابو، اخبار اپنی خبریں بیچتے ہیں، کالم بیچتے ہیں،! سرخیاں بیچتے ہیں، اداریے بیچتے ہیں، صحافی پیسوں کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف تحریربازیاں کرتے ہیں”

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

عالموں کی تحریریں بکتی ہیں، لیڈروں کی تقریریں بکتی ہیں،!بولیاں لگائی جاتی ہیں، زبانیں بکتی ہیں،اس منڈی میں کیا کیابکتا ہے؟

انہیں سوچوں میں ڈوبا چلا جارہا ہوں کہ کانوں میں اذان کی آواز پڑتی ہے۔ میں جو بے نماز ، بے عمل،! نام کا مسلمان مسجد کے سامنے سے گزرتا ہوں!تو دل کہتا ہے ایک سجدۂ خدا ہی کر لے۔  مسجد کے صدردروازے پر پہنچتا ہوں تو مجھے دو جوان روک لیتے ہیں۔ مسلک کا پوچھا جاتا ہے، اتا پتا پوچھا جاتا ہے، اصلحہ کی تلاشی لی جاتی ہے! اور مجھے مسجد میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ گویا اب مسجدیں بھی محفوظ نہیں۔

میں امام صاحب کے عقب میں جابیٹھتا ہوں تو مجھے اس قطار سے اٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ کہہ کر کہ آج وزیرصاحب تشریف لارہے ہیں! اور وہ یہاں بیٹھیں گے۔ میں ایک وی آئی پی کلچر میں مساوات اسلام کا سوچتے ہوئے چند قطاریں پیچھے جا بیٹھتا ہوں۔ نماز کا وقت ہوچکا ہے مگر وزیرصاحب غائب ہیں۔امام صاحب نماز شروع کراونے میں تاخیر کر رہے ہیں،نمازی بے چین ہیں۔

اچانک وزیر صاحب کی آمد ہوتی ہےاور نماز شروع کی جاتی ہے۔ گویاعباداتِ خداوندی بھی اب وزرأ کے حاضری سے مشروط ہے!

نماز کے بعد امام صاحب وزیر صاحب کے کہنے پرکسی مسلے پر فتویٰ دیتے ہیں اور وزیر صاحب مسجد کو لاکھوں روپے بطور عطیہ دیتے ہیں۔ ملا کیساتھ تصاویر بنائی جاتی ہیں – اورسخاوت کا پرچار کیا جاتا ہے!

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

ہلکی ہلکی سی شام کا وقت ہے اور میں ایک محلے سے گزررہا ہوں۔ اکیسویں صدی میں بھی اِن محلوں میں روشنی کا انتظام نہیں،! ٹوٹی پھوٹی گلیاں، بے چراغ راستے،! عالیشان گھر اور انہیں گھروں کی بغلوں میں پسماندگی کے مارے غریب غربا – کچی خستہ دیواروں، ٹاٹ کے پیوند لگے چھتوں کے اندرون عزتِ نفس کو چھپائے بیٹھے ہیں۔

ایک محل نما مکان سے بے ہنگم شورشرابے کی آوازآتی ہے۔لگتا ہے گیت کے فن سے ناآشناکوئی درد سے چیخ وپکار کررہا ہے۔ میں کھلی کھڑکی سے جھانک کر دیکھتا ہوں تو کمرے میں سراؤنڈ سسٹم کے فل لوڈ پر دلیرمہندی کے بیہودہ میوزک پر لڑکے اور لڑکیاں بسنت کی آمد پر ڈانس کررہے ہیں،شرابیں چل رہی ہیں اور اخلاق سوز حرکات ہورہی ہیں۔!

انہیں شراب خریدنے کا پرمٹ کہاں سے مل جاتا ہے؟

میں ایک نظراس محل نما مکان کی پیشانی کی طرف ڈالتا ہوں جس پر لکھا ہے:   ھذا مِن فضلِ ربی   – میں اپنے دل کو مردہ کیے وہاں سے چلتا ہوں۔ چند ایک گھر چھوڑ کرایک گھر سے مجھے رونے کی آوازیں آتی ہیں۔دروازہ جو کواڑ پر ہے، اُس سے جھانک کر دیکھتا ہوں۔ ایک چارپائی پر ایک نعش پڑی ہے۔ ایک بڑھیاپائے کے ساتھ سر لگائے بے سدھ بیٹھی ہے،چند قدم کے فاصلے  پردو بچے سہمے سہمے بیٹھے ہیں۔

میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوجاتا ہوں۔ لاش کو دیکھتا ہوں، بڑھیا کو دیکھتا ہوںاور بچوں کوایک کمرے سے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز آتی ہے۔

میں اُس کمرے میں جاکر دیکھتا ہوں، مدھم سی روشنی میں ایک سفید چادر بچھی ہے، جس پر تازہ تازہ خون کے چند قطرے ہیں، ایک طرف ایک ڈھولکی، مہندی اور ٹوٹی ہوئی چوڑیاں نظرآتی ہیں۔ایک طرف ایک نوجوان لڑکی پھٹا ہواعروسی لباس اوڑھے دیوار سے ٹیک لگائےنیم بے ہوشی میں پتھرائی آنکھوں سے روشندان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔!

بکھرے بکھرے گیسو، ٹوٹی ہوئی چوڑیاں، پریشان سانسیں۔ اگرابھی بھی میں ساری روداد نہ سمجھ پایا کہ باہر کا دروازہ دڑام سے کھلتا ہے،ایک نوجوان ہانپتا اور کانپتا بڑھیا کے پاس پہنچ کر ٹوٹی پھوٹی آواز سے کہتاکہ دیکھ ماں میں اپنی بہن کے جہیز کے لیے پیسے لے آیا ہوں، بہنا کی رخصتی کرو ماں۔

اسی اثنا کوئی مالداراپنے ساتھ پولیس کو لیے داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھ لو صاحب یہ ہے وہ چور جس نے میرے گھر سے چوری کی ہے۔پولیس والے اسے گردن سے دبوچ لیتے ہیںاورلے جاتے ہیں، وہ چیختا رہ جاتا ہے کہ میں نے اپنا خون بیچا ہے، اپنا گردہ بیچا ہے مگر اس کی سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔

بڑھیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو، اور مالدار اپنے چہرے پر رندانہ مسکراہٹ لیے چلا جاتاہے۔ میں گھر سے نکلتے وقت اس کی پیشانی پر دیکھتا ہوں پر یہاں پر مجھے ھذا مِن فضل ربی کا جملہ لکھا نہیں ملتا۔

ایک ہی محلے میں سماجی اور اخلاقی اونچ نیچ کی مثال دیکھ کر میں آسمان کو دیکھتا ہوں اور یہ سوچ اپنے اندر لیے کہ پیسہ ہو تو بسنت جیسی غیرمذہبی، غیراخلاقی رسمیں بھی اپنائے جاسکتی ہیں، غریب کی عزت داغدار کی جاسکتی ہے، قانون تک خریداجاسکتا ہے، سفید پوش کی سفید پوشی خریدی جاسکتی ہے،عزت خریدی جاسکتی ہے، انسانیت خریدی جاسکتی ہے!–  دولت ہو تو ضمیر مطمئن کیا جاسکتا ہے

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

غربا کی زندگیوں کی طرح میرے دل میں بھی اندھیرا چھاگیا، میں تیز تیزقدم اٹھاتا ہوا کسی روشنی کی طرف بڑھنے لگا۔ اپنی بے سدھی میں نظروں کو چندھیا دینے والی! روشنیوں کے محلے میں داخل ہوا۔! ہر سو ایک گہماگہمی ہے۔ دکانوں پر رونقیں ہیں، لباس سے ہرکوئی خوشحال دکھائی دیتا ہے۔

میری نظر ایک بالکونی کی طرف اٹھتی ہے:نوعمر، نوخیز دوشیزائیں عشوہ اندازیوں سے بازار سے گزرنے والوں کی توجہ حاصل کرتی نظرآتی ہیں۔یہ نظارا کئی ایک بالکونیوں سے نظرآرہا ہے۔بازار سے گزرنے والے “معزز” کو جب کوئی “سودا” پسند آجاتا ہے! تو اُس بالکونی کی سیڑھیاں چڑھ جاتا ہے۔

میرے قدم بھی ایک بالکونی کی جانب اٹھتے ہیں۔

ایک نفیس کمرے میں شہر کے چند عزت دار حوا کی بیٹی کا ناچ گانا سننے میں محو ہیں۔سکوں کی جھنکار ہے، عصمت کے سودے ہورہے ہیں اور ان  پر تکرار ہے۔!گوئیوں کی لے پر، تماشائیوں کی شے پر، طبلوں کی دھن دھن پہ ، پائلوں کی چھن چھن پہ جسموں کا سودا ہورہا ہے۔  بولیاں لگائی جارہی ہیں اور بنتِ حوا کے جسم سے ہولیاں کھیلی جارہی ہیں۔ یہاں آنے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جس عورت کا سودا کر رہے ہیں یہ ان ہی میں سے کسی کی اولاد ہے۔ مگر نہیں! یہاں پر موجود عورت، ماں نہیں، بیٹی نہیں، بہن نہیں یہ محض ایک طوائف ہے اور کچھ نہیں!

جنسی ہوس میں ڈوبا ہوا مدقوق سوداگرگستاخ فقروں سے  اور بھوکی نگاہوں سے پناہ مانگتی حوا کی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر صبح ہونے سے پہلے پہلے اپنے عزت دار گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظرثناخوانِ تقدیسِ مشرق کے منتظر رہ جاتے ہیں !– مگر یہاں کوئی نہیں آتا – یہاں صرف تقدس خریدا جاتا ہے،! بن کھلی کلیاں خریدی جاتی ہیں،! نوعمر ادائیں خریدی جاتی ہیں، وفائیں خریدی جاتی ہیں !– یہ منڈی ہے یہاں سب کچھ خریداجاتا ہے!

Bolo Ji Tum Kya Kya Kharidoge

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

میرادم گھٹنے لگتا ہے۔میں اس منڈی سے دورکہیں پرسکون ٹھکانے کی کی جانب قدم اٹھاتا ہوں۔ رات کے اندھیروں میں دور سے ایک ٹیلے پر جلتی ہوئی آگ نظر آئی ہے۔میرے قدم خودبخود اُسی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔ ٹیلے پر پہنچتے پہنچتے تھک جاتا ہوں، گھٹنوں پر ہاتھ دھرے منڈی کی روشنیوں کو دیکھ رہا ہوتا ہوں!کہ مجھے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔

مڑکردیکھتا ہوں کہ ایک بڑھیا، جس کے چہرے پر جھریاں، جسم ڈھلکا ہوا،!آنکھیں گویا پتھراسی گئی ہوں،! لباس گہراسبزاورسفیددوپٹہ، جو بظاہر تو صاف تھا مگر بہت سارے عیوب سے بھرا ہوا۔ عمر لگ بھگ ساٹھ پینسٹھ  سال، مجھے دیکھ کر کہنے لگی!: “اتنی جلدی تھک گئے ہو؟    ابھی تو تمہاری اِس منڈی میں ابتداہے،ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے؟

یہاں ہرکوئی سوداگرہے، کوئی بیچتا ہے تو کوئی خریدتا بھی ہے۔ میرے پاس آئے تو بتاؤ کیا خریدوگے؟”۔

میں نے اُس بڑھیا کو دیکھا اور حقارت بھرے لہجے سے کہا: “بڑھیا تم کیا بیچوگی؟تمہارے پاس بیچنے کو ہے ہی کیا؟”۔

یہ سُن کر بڑھیا نے نفرت سے میری جانب دیکھا اورمنہ پھیر لیا۔!چندلمحوں کی خاموشی میں زورپکڑتی ہوا کے سوا کچھ اورسنائی نہ دیا۔پھربڑھیا نے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئی:

“تم کہتے ہو کہ میں تمہیں کیا بیچوں گی؟ تمہارے اور تمہارے جیسے ناشکروں کے لیے ہم نے کیا کیا بیچا ہے سنو!– میں نے ایک ہندوگھرانے میں جنم لیا، شانتی نام تھا میرا، اسلام کا پیغام میرے باپ کو متاثرکیے بن نہ رہ سکا، والدین نے اسلام قبول کیاتو ہرجانب سے ظلم وجبر کے پہاڑٹوٹ پڑے، وہ کونسا ظلم ہے جو ہم نے ایک اللہ کی وحدت کی گواہی پر نہیں اٹھایا۔ بالآخرہمیں ہندوسماج سے الگ ہوناپڑا، تقسیم ہوئی اور ایک نئے ملک ، نئی سرزمین کی جانب نئی امنگیں، آرزوئیں اور امیدیں لیے سفرپرگامزن ہوئے۔ سرحدپارکرنے سے پہلے ہی میراشوہر اور جوان بھائی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے گئے۔ ہماراجائز حق بھی ہندؤں نے لوٹ لیا، بےسروسامانی کی حالت میں اپنے چھ بچوں کے ساتھ اس نئے ملک میں داخلpakistan 06ہوئی۔محنت کی مزدوری کی،مشقت کی، بچوں کو پڑھایا، باشعورکیا۔ دشمنوں کی چالوں کے باوجودستمبر کی راتوں کو جاگ جاگ کراپنے چھ بچوں کی حفاظت کی، دشمن کی ہرچال کو ناکام بنایا۔

مگر جب ایک بیٹا24 سال کا ہوا،کمانے کے قابل ہوا تو سازشوں کاایک اور جال بچھااور اس بار میں اُسے کھو بیٹھی، میرا بازو کٹ گیا۔

اس کے دل میں اس قدر نفرت بھردی گئی کہ اس نے اپنا نام تک بدل لیا۔میں نہیں جانتی تھی کہ یہاں پر قدم قدم پر لٹیرے چھپے بیٹھے ہیں۔کوئی مذہب کے نام پر جہاد کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا اور میری اولاد کو موت کے منہ میں دھکیلتا، کوئی مسلک کے نام پر خونی آنکھ مچولی کھیلتا، کوئی لٹیرا اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے میری اولاد کو استعمال کرتا اور سرِعام یوں خون بہاتا جیسے انسان کاخون پانی سے سستا ہے، کوئی میرے بچوں کو دہشتگردی کے نام پر کافروں کے آگے بیچتا، خزانے لٹے مگر لوٹنے والوں کے دل نہ بھرے۔

 بار بارہمیں لوٹا جاتاقانون سے مدد مانگی تو قانون گونگا اور بہرہ ملتا اورتم کہتے ہو کہ ہم تمہارے جیسے ناشکروں کے لیے کیا بیچیں گے؟ – ہمارے کس کس احسان کا بدلہ چکا سکتے ہو تم؟ایک ایک رتی لوٹ لی تم لوگوں نے اس منڈی کی،آزادی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں تم نے اور تم کہتے ہو کہ میں تمہیں کیا بیچوگی؟؟؟”

بڑھیاسسکیاں لینے لگی، ایک لمحے کی خاموشی ہوئی! اور بڑھا زمین پر ڈھیر ہو گئی۔ تیز ہوا کا جھونکا ایا اور بڑھیا کا دوپٹہ اُڑ کر میرے چہرے پر گر گیا۔بظاہر سفید مگر 65 سال کے دکھوں، ناانصافیوں، تکلیفوں اور کربوں سے بھرا دوپٹہ میں نے پکڑا اور بڑھیا کا کفن بنا کر بولا!:

“اِس خطے کی شانتی تو کب کی مرچکی ہے ماں، اب اِس ملک کا امن بھی خریدا جاتا ہے”

بولو جی تم کیا کیا خریدو گے؟

وہ سفرجوایک بہت بڑا سودا کرنے کی نیت سے شروع ہوا، وہ دل کا روگ بن گیا!


مسعوؔد ، کوپن ہیگن ،اپریل 2005

ARY Morning Show, GEO Morning Show, Morning Show Pakistan, Urdu Adab, Urdu Novel, Writer Urdu, Pakistan People, Urdu Language, Heera Mandi.

logo


About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW