Meri Tehreerein Shab-o-Roz

The Substitution

Meri Tehreer: The Substitution
The Substitution

آج چوٹی کا میچ ہوگا! دونوں ٹیموں نے بھر پور تیاری کر رکھی ہے اور دونوں ٹیمیں مکمل فارم میں ہیں۔

دونوں ٹیموں کے کوچز نے حتمی حکمتِ عملی تیار کر رکھی ہے اور بہترین ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔

سٹیج سیٹ ہے!

دونوں ٹیموں کے کھلاڑی میدان میں چست اورچوبند نظر آرہے ہیں۔ ہر کھلاڑی درحقیقت اِس سٹیج پر ایک کردار ہے! اپنا اپنا رول احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش میں ہیں۔

اسٹیڈیم میں چاروں طرف ایک ہلچل ہے۔ میچ شروع ہوتا ہے۔ اور دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ہر کھلاڑی اپنا اپنا کردار بہت اچھے طریقے سے ادا کررہا ہے۔

ٹیم الف کے strikerنے دو گول کر کے اپنی ٹیم کو ٹیم بے پر ایک کے مقابلے میں دو گولوں کی سبقت دلا دی ہے۔

میچ ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہتے ہیں اور ٹیم بے یہ سبقت ختم کرنے کے لیے حملے پر حملہ کررہی ہے۔ ایسے میں ٹیم الف کا کوچ ایک چال چلتا ہے اور اپنے اُس striker کو جس نے دو گول کیے ہوتے ہیں تبدیل کرتا ہے. اور ایک دفاعی کھلاڑی کو میدان میں بھیجتا ہے تاکہ وہ دفاع میں دوسرے دفاعی کھلاڑیوں کی مدد کرے!

ایک زبردست tacticalچال!

لوگوں کے نزدیک یہ ایک substitutionتھی۔

مگر میری سوچیں فٹبال کے میچ سے باہر نکل کرکسی اور ہی مقام پر گردش کرنے لگی ہیں۔ یہ دنیا ایک بساط ہے اور ہم سب اِس کے مہرے ہیں۔

خالقِ حقیقی نے ہمیں کھلاڑیوں کی طرح دنیا میں بھیجا ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کرو! اور پھر جب کسی کا کردار پورا ہو جاتا ہے تو اُسے واپس بلا لیتاہے۔

یہاں بحث یہ نہیں کہ کوئی اچھا رہا یا برا،کوئی tacticalوجہ تھی کہ forcedبس جس کی باری آتی ہے اُسے بلا لیتا ہے۔ اُن کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو مل جاتی ہے۔

ایسے بھی کچھ کھلاڑی ہوتے ہیں جو اِس سٹیج پر صرف ایک خانہ پری کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ دوسرے کھلاڑیوں کو آرام دینے کے لے، وہ ٹوٹ کر بکھر نہ جائیں انہیں سہارا دینے کے لیے اور وقت گزرانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ کردار بساطِ ہستی میں بھی ہیں! جن کی اپنی کوئی زندگی نہیں، وہ جیتے ہیں تو دوسروں کے لیے۔ اور مرتے ہیں تو دوسروں کو ایک نئی جلا بخش جاتے ہیں۔ ایسے کردار جن کی روشنی سے دوسرے تو فیض پاتے ہیں مگر وہ خود ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

ایسے کردار جو نہ اپنی خوشی سے آتے ہیں نہ اپنی خوشی سے جاتے ہیں… لیکن حق تو یہ ہے کہ جس کی باری آئی اُس کو جانا ہے۔

maybe I am next to be substituted – then I’ll have to leave the stage!

The Substitution

مسعودؔ کوپن ہیگن ۲۷ نومبر۲۰۰۵

Meri Tehreer: The Substitution

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW