کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی
کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا تیرا پہلو، تیرے دل کی طرح آباد رہے اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
کچھ باتیں لاکھ چھپانے کے باوجود نہیں چھپائی جاسکتیں! وہ ہوا کے دوش پر گوش بگوش ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بات تیری شناسائی کی ہے۔ وہ شناسائی جو شاید مجھ سے نہ تھی۔ مگر میں ایک ایسی بدگمانی میں مبتلا تھی کہ اس نے میری پذیرائی ایسے کی جیسے گل کی پذیرائی خوشبوکرتی ہے۔ عجیب بدگمانی! میں یہ بات کیسے کہہ دوں کہ اس نے مجھے چھوڑدیا ہے۔ اس نے اپنے راستے جدا کر لیے۔ ایک ایسے رشتے کو نبھانے کی بجائے جو ایک ائیڈئیل رشتہ ہو سکتا تھا، اس نے نجانے کس کی خاطر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ میں پل پل تیری راہیں تکتی تھی ، تیرے پیار کے لیے اپنی ہر آرزور کا گلا گھونٹ لیا! ہر زہر پی لیا! ہر تکلیف برداشت کر لی! اپنے ہر ممکنہ کوشش کے باوجود تم نے مجھ سے رشتہ توڑ لیا۔ میں یہ بات کیسے کہہ دوں کہ اس میں میرے لیے رسوائی ہے! بدنامی ہے! تہمت ہے! مگر کیا کروں سچی بات ہے اور سچ کو ٹالا نہیں جاسکتا! وہ کس لطف کی تلاش میں کدھرکدھرگیا میں نہیں جانتی۔ میں جانتی ہوں تو فقط یہی ایک بات کہ وہ جہاں سے بھی لوٹ کے آیا، آیا تو میرے ہی پاس۔ ہربھٹکی ہوئی راہ کی منزل پر اسے میں ہی ملی۔ ہر گمنام راستے سے جہاں واپسی کا رستہ کھو جائے، اسکے لیے میں ہی ڈھال بنی – بس یہی ایک بات اچھی تھی کہ وہ تھک ہار کے میرے ہی پاس آیا۔ پر وہ کیا جانے کہ اس کے اس بھٹکے ہوئے سفر میں مجھ پر شبِ تنہائی کی تلخ اور تاریک راتوں میں کیا گزرتی تھی۔ جس اس بات کے احساس سےکہ تو کہاں ہوگا قلب اور دماغ کے شریان پھٹنے والے ہوتے تھے اس روح تڑپاتی تکلیف کو برداشت کیا پر دعا کی کہ تیرا پہلو تیرے دل کی طرح آباد ہی رہے۔ تجھے وہ راحت نصیب ہو جسکی طلب تجھے مجھ سے بیوفائی پر اکساتی رہی۔ کبھی میں خودسے بے سدھ ہوکر گرپڑتی تو تجھے میری محبت کا احساس ہوتا اور تیرا ایک ہاتھ جو میری پیشانی کو پیار سے چھولیتا وہی میرے لیے امرت ہوتا۔ یہ احساس میری روح کو مسیحائی کی تاثیر سے دوچارکر دیتا۔ یوں لگتا کہ صدیوں کی بیماری کے بعد مسیحا کی ایک نظرِ کرم پڑی اور میرے مشکلات حل ہوگئیں۔ اسقدرتاثیرہوتی تیرے ہاتھ کے چھونے سے۔ یہی وہ تاثیر ہے جو آج بھی برسات کی رم جھم میں مجھے دلہن بننے کی آرزو میں مبتلا کر دیتی ہے کہ دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ تیری سیج سجی ہو اور میں اس پر تیری من پسند دلہن بن کر ایسی انگڑائی لوں کہ بدن ٹوٹ جائے! پر یہ میری انجان سی خواہشیں ہیں – معصوم سی – بیدوش سی۔ سچ تو یہ ہے کہ کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے – بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی کوبکوپھیل گئی بات شناسائی کی
Add Comment