گلدستۂ غزل

پھر ساون رت کی پون چلی

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں 
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے
 پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا 
بادل گر جا پولی چمکی تم یاد آئے آئے
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا 
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

شاعر:ناصرکاظمی

تمہاری یادیں ہر پل میرے ساتھ ساتھ رہتی ہیں! فاصلے محبتوں کے رنگوں کو دھندلا تو سکتے ہیں مٹا کبھی نہیں سکتے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نا کوئی کسک باقی رہتی ہے کہ ہم میں تم میں بھی کبھی پیار تھا۔۔اور پھر جب ایسے میں ساون رت کی میٹھی میٹھی سندر سندر سی پون چلے تو تم یاد آنے لگتی ہو۔ اس ساون رت میں پتے جب آوارہ ہوا کے ساتھ ساتھ آنکھ مچولیاں کھیلتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے تمہارے پاؤں کی پازیبیں بج رہی ہوں۔ ہرے ہرے سرسبز گھاس کی لہریں جب اس آوارہ ہوا سے اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو لگتا ہے جیسے کونج صدائیں دے رہی ہے۔مجھے یاد ہے تمہارا وہ سوٹ! وہ پیلا سوٹ جس میں تمہارا بدن پھولوں کی طرح لہرا رھا تھا یہ پیلے پھولوں کی رت اس کی یاد دلاتی ہے۔ گھر کے صحن پر کاگ کا بولنا کہتے ہیں کہ جیسے کوئی مہمان آنے والا ہے وہ تم تو نہیں؟ آ جاؤ کہ امرت رس ٹپک رہی ہے! آجاؤ کہ تمہاری یاد ستا رہی ہے
مگر! جب ہر سمت دیکھکر بھی کچھ نظر نہ آیا تو میں چیخ چیخ کر رونے لگا! وہ پل کا پل ، لمحہ در لمھہ میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا! تمہاری جدائی میں آنسو تمہارے صورت نظر آ جاتے پر ہنسنا! آج بھی ایسا ہی ہوا پہلے چیخ کر رویا اور پھر ہنسنے لگا! بادل کی گرج ہو کہ بجلی کی چمک تم ہی یاد آتی ہو! اکثر سوچتا ہوں کہ سارے دن کی مصروفیت بہت اچھی ہے کہ دھیان بٹ جاتا ہے مگر پھر جب شام ڈھلے اپنے ویران گھرکی درودیوار سے سائے ڈھلتا دیکھتا ہوں تو تمہاری یاد شدت سے ستاتی ہے!

تبصرہ مسعود

lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW