صاف ظاہر ہے نگاہوں سے
غزل
صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ وہ ہم پرمرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں
اِک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بڑھتے ہیں
عشرتِ رفتہ نے جا کر کیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
آسمان سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
اب یہ حالات ہیں کہ ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں
شعر کہتے ہو بہت خوب تم اخترؔ لیکن
اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں
شاعر: اخترشیرانی
چھپی چھپی سی مسکان، ہلکی ہلکی شرارت، کبھی دیکھ کر مسکرا دینا، کبھی مسکرا کر دیکھ لینا، دل میں اظہارِ محبت، ہونٹوں پر خوفِ دنیا، نہ اظہار نہ اقرار، یہ عہدِ جوانی کی تصویریں، یہ محبت کی تعزیراں، خوںِ جگر، اُدھر اِدھر، ماضی کی باتیں، باتوں کیا حسرتیں، یادیں، اذیتیں، انجانی خوشیاں انجانے دکھ، ایک جملہ محبت کیا کہدو، ہر طرف کیدو ہی کیدو، جہاں دشمن، آسمان دشمن، اندر ہی اندر، دھڑکن بھی مکدر، ہنسی ختم، شُتم ہی شُتم، اچھی باتیں، ویران راتیں۔۔
Add Comment