دل پہ زخم کھاتے ہیں جان سے گزرتے ہیں
غزل
جرم صرف اتنا ہے اُن کو پیار کرتے ہیں
اعتبار بڑھتا ہے اور بھی محبت کا
جب وہ اجنبی بن کر پاس سے گزرتے ہیں
اُن کی انجمن بھی ہے دار کی رسن بھی ہے
دیکھنا ہے دیوانے اب کہاں ٹھہرتے ہیں
اُن کے اِک تغافل سے ٹوٹتے ہیں دِل کتنے
اُن کی اک توجہ سے کتنے زخم بھرتے ہیں
وہ دیارِ جاناں ہو یا جوارِ میخانہ
گردشیں ٹھہرتی ہیں ہم جہاں ٹھہرتے ہیں
جو پلے ہوں ظلمت میں کیا سحر کو پہچانیں
تیرگی کے شہدائی روشنی سے ڈرتے ہیں
لاکھ وہ گریزاں ہو لاکھ دشمنِ جان ہوں
دِل کو کیا کریں صاحب ہم انہیں پہ مرتے ہیں
[spacer size=”30″]
شاعر: ?
غالب نے کہا تھا، خاک ہو جائیں ہم تم کو خبر ہونے تک، صاحب اب تو تغافل برتو یا دامن بچاو، نظریں چراؤ یا لن ترانی پہ آجاؤ ، دل تم پر مر مٹا ہے اب اس پر ستم ہوں یا جفائیں، جاں سے گزریں یا اپنا بنالو، ہم تو تم سے پیار کرتے ہیں شاید یہی ہماری وفاؤں کا جرم ہے، ہمیں کیا کہ دار کی رسن ہو یا محفلِ یار ہمیں تو پتنگوں سے غرض ہے کہ وہ کس سمت جاتے ہیں، تم تو ٹھہرے صنم اور صنموں کے ایک تغافل سے کیا کیا حسین دل ٹوٹ جاتے ہیں یہ تم کیا جانو؟
فتح علیخان اسکو یوں بیان کرتے ہیں:
[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=c8Fb5RQ4_mY[/embedyt]
Add Comment