بزمِ سخن رومانٹک شاعری

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

قوالی کی شکل میں

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو

وہ کیا سنور گئے  میری قسمت سنور گئی
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

وہ اگر بن سنور گئے ہوں گئے
دیکھنے والے مر گئے ہوں گئے
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

ہزاورں وعدۂ شب اس نے اس صورت  سے پالے ہیں
کبھی مہندی لگائی ہے کبھی گیسو سنبھالے ہیں
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے محوِ آرائش
وہاں ہونٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے
وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ انکو اپنی خبر نہیں ہے
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

آئینے میں ہر ادا کو دیکھ کر کہتے ہیں وہ
آج یہ دیکھیں گے ہم کس کس کی ہےآئی ہوئی
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

سجنے کے وقت یہ بھی ذرا دیکھتے نہیں
آئینہ دیکھتا ہے انہیں کس نگاہ سے
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

انہیں آرائشِ گیسو سے مطلب
کوئی دیوانہ ہو جائے بلا سے
ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا چاندنی رات میں یوں نہ زلفوں کو اپنی سنوارا کرو

یہ تبسم یہ عارض یہ روشن جبیں یہ ادا یہ نگاہیں یہ زلفیں حسیں
آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں جانِ جاں اپنا صدقہ اتارا کرو

دل تو کیا چیز ہے جان سے جائیں گے موت آنے سے پہلے ہی مر جائیں گے
یہ ادا دیکھنے والے لٹ جائیں گے یوں نہ ہنس ہنس کے دلبر اشارا کرو

یہ ادا ہے کیا قیامت، یہ ادا یہ ادا کیا قیامت یہ ادا
ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں  تک چھائی ہوئی
اف تیری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
کیا قیامت! یہ ادا ہے ، یہ ادا، کیا قیامت

بسمل کا خدا حافظ قاتل کا خدا حافظ
تم جس دل پر نظر ڈالو اس دل کا خدا حافظ
کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

انداز اپنے دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
کیا قیامت! یہ ادا ہے کیا قیامت

دل چرانے کی ادا خاص ہوا کرتی ہے
دیکھ لیتے ہیں وہ گزیدہ نظر سے
کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

ذرا انکی شوخی تو دیکھیے لیے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
میرے پاس آ کے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

انگڑائی لے کے اس نے مجھ پہ خمار ڈالا
ظالم کی اس ادا نے بس مجھ کو مار ڈالا
کیاقیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

یہ ادا دیکھنے والے لٹ جائیں گے
یوں نہ ہنس ہنس کے دلبر اشارا کرو

فکرِ عقبا کی مستی اتر جائے گی توبہ ٹوٹی تو قسمت سنور جائے گی
تم کو دنیا میں جنت نظر آئے گی شیخ جی میکدے کا نظارا کرو

کام آئے  نہ مشکل میں کوئی یہاں مطلبی دوست ہیں مطلبی یار ہیں
اس جہاں میں نہیں کوئی اھلِ وفا اے فناؔ اس جہاں سے کنارا کرو

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا  ہمار کرو

 

[spacer size=”30″]

شاعر: فناؔبلندشہری (سرخ رنگ میں)

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

اردو کی رومانٹک شاعری میں فناؔ کا جواب نہیں! الفاظ کو ایسے حسین پرائے میں باندھتے ہیں کہ محبوب کے انگ انگ کی تعریف خود کرنے لگتے ہیں، اور پھر فنا کی اس حسین شاعری کو نصرت فتح علیخان نے کس زبردستی سے زیروبم کیا ہے، آپ خود سنئیے:

[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=Dkc4uI-Iyis[/embedyt]

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW