تنہا تنہا

خیرمقدم

Ahmed Faraz
خیرمقدم

قصیدہ نویسوں نے مل کر یہ سوچا
کہ پھر آج وہ ساعت جانستاں آگئی ہے
جب اُن سے کوئی اُن کا آقا جُدا ہورہا ہے
وہ آقا؟
کہ جس کی مسلسل کرم گستری سے
کوئی خادم خاص ہویا کہ ادنیٰ ملازم
کسی کے لبوں پر کبھی کوئی حرفِ شکایت نہ آیا
وہ آقا کہ جس کی سخاوت نے سب کے دلوں اور دماغوں سے
حاتم کے مفروضہ قصے بُھلائے
اگر چہ وہ نوشیرواں کی طرح شہرمیں کو بُکو بھیس بدلے نہیں گھومتا تھا
مگر پھر بھی ہر سمت امن داماں تھا
اگر چہ جہانگیر کی طرح اُس نے
کوئی ایسی زنجیرز رقصر شاہی کے باہر نہ لٹکائی تھی
جس کی ہلکی سی جنبش بھی انصاف شاہی میں طوفاں اُٹھاتی
مگر پھر بھی ہر گھر میں عدل ومساوات کا سائباں تھا
اگر چہ کبھی وہ جھرد کے میں بیٹھے
رعایا کو رُوئے مبارک کے درشن سے مجبور ِ سجدہ نہ کرتا
مگر پھر بھی ہر دل پہ وہ حکمراں تھا
وہ جان جہاں تھا بڑا مہرباں تھا
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ آخروہ لمحات بھی آگئے ہیں
جب اُن سے بچھڑنے کو ہے اُن کا دیرینہ آقا
تو وہ آج اُسے کون سا ایسانا یاب تحفہ کریں پیش
جس سے رہیں تا ابدیاد آقائے عالی کو
اپنے وفادار وپاپوش بردارخادم
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ یوں تو عہدے میں ہیں
قصر شاہی کے جارُوب کش سے بھی کہتر
مگر عالم کلک وقرطاس کے بادشاہ ہیں
وہ چاہیں تو اپنے قلم کے اشارے سے
زروں کو ہم رُتبہ مہر دمہتاب کردیں
وہ چاہیں تو اپنے تخیل کے جادو سے
صحراؤں کے خشک سینوں کو پُھولوں سے بھردیں
وہ چاہیں تو اپنے کمالِ بیاں سے
فقیروں کو اورنگ وافسر کا مالک بنادیں
وہ چاہیں تو اپنے فسونِ زباں سے
محلات کے بام ودیوار ڈھادین
وہ چاہیں تو یکسر نظامِ زمانہ بدل دیں
کہ وہ عالم کلک وقرطاس کے بادشاہ ہیں
یہی ہے وہ ساعت کہ وہ اپنے محبوب آقا کی تعریف وتوصیف میں
آسمان وزمیں کو ملائیں
کہ وہ اپنی اپنی  طبیعت کے جوہر دکھائیں
کہ وہ اپنے آقا سے بس آخری مرتبہ داد پائیں
مگر پھر قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ تو ہیں عہدے میں ایوانِ شاہی کے جاروب کش سے بھی کہتر
انھیں کیا کوئی آئے یا کوئی جائے
کہ اُن کا فریضہ تو ہے صرف آقائے حاضر کی خدمت گزاری
کہ ان کا فریضہ فقط تاج اور تخت کی ہے پرستش
تو پھر مصلحت ہے اسی میں
کہ اپنےقصیدوں سے آقائے نوکاکریں خیر مقدم

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW