Columns Current Affairs

ذلت

ذلت
پاکستان کو وجود میں آئے 75 سال ہو چکے ہیں مگر علم و حکمت، ترقی و ارتقا، خودشناسی وخودداری اور  ہنر و فنکاری کے اس دور میں ہمارا معاشرہ جہالت وغفلت اور ذلت و رسوائی کی پست ترین دلدل میں پھنسا ہوا۔ اکیسویں صدی کے بائیسویں سال کے اختتام پر بھی ہماری قوم بدترین غلامی میں پھنسی ہوئی ایک ایسی قوم ہے جس کو اپنی نہ اپنی آخرت کی فکر ہے، نہ اپنی عاقبت کی پروا ہے اور نہ ہی اپنے حال کی۔

پاکستان میں 5 فیصد کے قریب ایسے خاندان ہیں جو امیر ہیں۔ مگر یہی وہ امیر خاندان ہیں جو پاکستان کا نظام چلارہے ہیں۔ اسی میں جرنیلز بھی ہیں، اسی میں سیاستدان بھی ہیں، اسی میں ججز بھی ہیں، اسی میں بیوکریٹ بھی اور اسی میں سرمایہ دار بھی! باقی کوئی 65 سے 70 فیصد ایسے ہیں جو غربت کی حدوں کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں، جو بھی رائے ہے ان کے ‘آقاؤں’ کی رائے ہے۔   انکی زندگیاں آج بھی ایسی ہی ہیں جیسے اس خطے کے چار پانچ ہزار سال پہلے کے لوگوں کی ہوا کرتی تھی جنکی دوڑ ‘روٹی کپڑا اور مکان’ سے آگے نہیں بڑھ پائی۔یہ وہ لوگ ہیں جو طوافِ کعبہ کیدوران اگر بیمار پڑ جائیں تو دعائیں کرتے ہیں اگر ہم تندرست ہو گئے تو ‘داتادربار’ دیگیں چڑھائیں گے! ان کی علمی، عقلی، شعوری اور ذہنی ارتقا ایک بریانی کی پلیٹ سے آگے نہیں بڑھ سکی!

بیچ کے لوگ جو نہ امیر ہیں نہ غریب ان کے الگ ہی جنگ چل رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں غریبوں سے راتوں رات دور ہوتے جائیں اور امیروں کے قریب ہوتے جائیں۔ وہ اپنی اس کشمکش میں ہر جائز ناجائز حد کو پار کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔

سن 2014 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 9 کڑوڑ افراد غیر تعلیم یافتہ قرار پائے: 9کڑوڑ!!!  یعنی ہر دوسرا پاکستان سرکاری طور پر ناخواندہ تھا! کیا اس سے بڑی لعنت اس معاشرے پر کوئی اور ہو سکتی ہے کہ اس دور میں بھی 9 کڑوڑ افراد کو جاھل رکھا گیا ہے؟ یہ 9 کڑوڑ اپنے لیے سیاسی لیڈر کیا کسی سیاسی منشور، کسی سیاسی سوچ یا  سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے کو ووٹ دیں گے یا بریانی کھلانے والے کو؟ جئے بھٹو کے نعرے اور روٹی کپڑا اور مکان ہی انکی جنت ہے!  پاکستانی قوم کو ایک سوچی سمجھی سوچ کے تحت جاھل رکھا جا رہا ہے۔ اگر قوم جاھل رہے گی تو شریفیوں اور بھٹؤؤں   اور زرداریوں کو ووٹ ملیں گے!

میں یہ بات اپنے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 90 فیصد پاکستانیوں کو پاکستا ن سے رتی برابر غرض و غایت نہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کا وجود بچتا ہے یا نہیں، ان کی غرض صرف اس بات سے ہے کہ جو ہمارے پاس ہے وہ ہمارا ہے، اس پر کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں، یہ ہم نے کیسے کمایا، بنایا، بچایا، حاصل کیا ہے اس کی نسبت کسی کو پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔ جو ہماری دسترس میں ہے – چاہے وہ حلال ہے یا حرام – ہمارا ہے اور اس پر ہمارا حق ہے۔ بلکہ ان کی فکر و غایت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس میں مزید اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کن کن ذرائع سے ہم اپنی مال و دولت میں، اپنے حصول میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے چاہے ہیں سیدھا راستہ اختیار کرنا پڑے یا الٹا اس پر کسی کو کسی قسم کا سوال اٹھانے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔

یہی سوچ ملک کے مضبوط ترین ادارے : فوج کے سربراہ کی ہے! یہ سوچ ملک کی دو بڑی ‘سیاسی’ جماعتوں کی ہے! یہ سوچ ملک کی عدلیہ کے ججز کی ہے!!!

ترقی اور علم کے اس دور میں 22 کڑوڑ افراد کے ملک پر ایسی لعنت برس رہی ہے کہ کوئی بھی ادارہ درست نہیں! پولیس انسانی کائنات کے غلیظ ترین ادارہ ہے! کوئی سفید پوش پولیس کیساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ رکھنے سے خوفزدہ ہے، پاکستانیوں کو پولیس پر رتی برابر بھروسہ نہیں۔ عدالتوں پر بھروسہ نہیں۔ پاکستانی جانتے ہیں عدالتیں شدید ترین مافیاز ہیں۔ ادھر کالے لباس میں ملبوس کالی بھڑیں دراصل طوائفوں سے غلیظ وجود رکھنے والی کنجریاں ہیں جو معاشرے میں عدم تحفظ کی علامت ہیں!

اس سے بڑی لعنت اس معاشرے پر اور کیا ہو گی کہ ملکی پارلیمنٹ میں 70 فیصد چور ڈاکو لٹیرے بدمعاش اور کرپٹ ترین لوگ بیٹھ کر اس ملک کا نظام چلا رہے ہیں، یہ لوگ سرٹیفیکیٹ جاری کر رہے ہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط!

کتنی بڑی لعنت ہے کہ اس ملک کے اداروں پر اس ملک کی عوام کو رتی برابر یقین نہیں۔ جب اخلاقی قدریں ذلت و رسوائی کی دلدل میں پھنس جائے تو معاشرے بے جان اور کھوکھلے ہو جاتے ہیں ، پاکستانی معاشرہ بے جان اور کھوکھلا معاشرہ بن چکا ہے۔

جہاں ادارے ذلت و رسوائی کی دلدل میں پھنسے ہوئے وہاں رہی سہی کسر انٹرٹینمنٹ کے نام پر ٹی وی نے پوری کر دی۔ اس وقت پاکستان ڈرامے انسانی ذہنیت کی پست ترین سوچ کو پیش کرتے ہوئے نظر آر ہے ہیں۔ 100 میں سے 99 ڈراموں کے کہانیاں ایک جیسی بے حیائی، بدکاری، بداخلاقی اور انسانیت سوز سبق دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کہیں کوئی نیا پن نظر نہیں آتا، 40 منٹ کی کہانی کھینچ کھینچ کر دو ددو سو episode بنا دئیے جاتے ہیں، یوں لگتا ہے ایک ڈرامے کے بعد سوچا جاتا ہے اب اس میں کہاں کھینچا تانی کی جائے۔ بیہودہ اور بکواس ڈراموں سلسلہ وار دکھائے جاتے ہیں۔  ذلت در ذلت در ذلت!

آج سے کوئی دس پندرہ سال پہلے پاکستانی عورت انٹرنیٹ پر اپنا ای میل تک دیتی ہوئی گھبراتی تھیں، آج کی عورت ٹک ٹاک، فیس بک، سوشول میڈیا پر اپنے جسموں کے مدوجزر دکھا کر فالورز تلاش کرتی ہے اور اپنے hips ، اپنی چھاتی کے مدوجزر اور سائز دکھا کر کامنٹ لیتی ہے۔ذلت در ذلت در ذلت!

معاشرے سے اخلاقیات کا ایسا دیوالیہ نکل چکا ہے کہ ملکی حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیدی گئی ہے جو اس معاشرے کے خنزیر ترین لوگ ہیں، وہ لوگ جنہیں عوام نے بری طرح دھتکار دیا تھا، وہ ایک چوربازاری سے ملک پر قابض ہیں۔ فوج ملک کا سب سے مضبوط اور سب سے مقدس ادارہ تھا، وہ بھی اب شدید ترین ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ عدالتی نظام ایک مدت سے شیطان کے تخم کی طرح ناپاک اور غلیظ نظام قرار پایا جا چکا ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام دنیا کے بدترین عدالتی نظاموں میں آخری نمبروں پر ہے: 22 کڑوڑ انسانوں کا اسلامی جمہوریہ پاکستان!!! ذلت در ذلت در ذلت!

مگر 90 فیصد عوام چپ چاپ اپنی اپنی دھن میں مگن ہے اور اس عوام کو رتی برابر بھی فکر نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ! انہیں غرض ہے تو اس بات سے کہ ہم سے کوئی کچھ سوال نہ کرے! !!


بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW