Columns

منافقت

منافقت
دنیا میں منافقت اپنے عروج پر ہے!

قطر فیفا فٹبال ورلڈ کپ اپنے اختتامی مراحل کی جانب رواں ہے!

یہ میری زندگی میں پہلی بار ہے کہ میں ورلڈ کپ نہیں دیکھ رہا! میری دلچسپی ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی مر گئی تھی! اسکی دو خاص وجوہات ہیں:

اول تویہ کہ میں جس نے اپنی ساری عمر فٹبال دیکھتے گزاری ہے، جو کبھی یورپ کی ہر بڑی لیگ کو شوق سے دیکھا کرتا تھا، اس بات کے حق ہی میں نہیں تھا کہ فٹبال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ قطر میں منعقد کیا جائے۔ قطر کا فٹبال سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔ قطر کے ساتھ فٹبال کو منسلک کرنا ایسا ہی ہے جیسا برازیل کے ساتھ کرکٹ یا گلی ڈنڈے کو منسوب کرنا ہے۔ فٹبال کی دنیا کا سب سے بڑا ٹورنامنت کسی ایسے ملک میں ہونا چاہیے جہاں پہلے سے فٹبال کا کوئی کلچر ہو، جہاں فٹبال کی جڑوں کو ٹریس کیا جا سکے۔ جہاں فٹبال کا کوئی مقام ہو۔ قطر ان تمام باتوں سے دور ہے جس نے کبھی بھی کسی بھی ٹورنامنٹ میں کوئی بھی خاطرخواہ پیش رفت نہیں کی۔

ایسے میں قطر میں فٹبال کا انعقاد صرف اور صرف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خطۂ عرب کے عربوں کے پاس دولت کے وہ انبار ہیں کہ انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ یہ پیسہ کہاں صرف کریں اور ایک دوسرے عربوں کو نیچا دکھانے کے لیے وہ ہر وہ عمل کر رہے ہیں جس سے ان کی شان اونچی ہو سکے اور وہ یہ کہہ سکیں کہ “ہم نے یہ کیا تم نے کیا کیا” – دوسرا کہے کہ ” ہم نے دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنا ڈالی، زیرِ زمین برف کے میدان بنا ڈالے تم بتاؤ تم نے کیا کیا” – اس پر تیسرا عرب کہے کہ ہم نے آئس لینڈ کے گھوڑوں کے لیے اسپیشل بوئنگ طیارے بنوائے اور اپنے لیے سونے چاندی کی آؤڈیز بنوائیں تم بتاؤ تم نے کیاکیا ہے”۔۔۔۔۔

عربوں کے ہاں ایسی “دوڑیں” انکے تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے عرب کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں۔ لہٰذا اس ورلڈکپ کا انعقاد بھی ایسی ہی ایک وجہ ہے۔ اس پر قطر کے عربوں نے فیفا کے ممبرز کو بے انتہا رشوتیں دیں۔ جس پر یورپ میں پہلے تو خاموشی رہی پھر جب ٹورنامنٹ کا آغاز قریب تر ہوتا گیا بہت واویلہ مچایا گیا۔ جو کہ یورپ کی بدترین منافقت کی غلیظ ترین مثال ہے: اگر قطریوں نے رشوت دی ہے تو کسی نے لی بھی ہے، لینے اور دینے والے دونوں خنزیر ہیں کسی ایک پر انگلی اٹھانا منافقت ہے۔

ساتھ ہی یورپئین نے یہ بھی واویلہ مچایا کہ جن اسٹیڈیم پر میچز کھیلیں جائیں انکی تعمیر میں بہت سارے مزدور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے مرے ہیں۔ ایک اور یورپئین منافقت!  چلیں مان لیا کہ انکی تعمیر میں مزدور مرے ہیں تو  انسانیت کا جو خون پچھلے 30 سال سے مغربی طاقتیں بلاوجہ طاقت کے نشے میں چور باقی دنیا اور خاص کر اسلامی دنیا کا بہا رہے ہیں کیا وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ کشمیر، فلسطین ، میانمار، چین، افغانستا، عراق، شام، چیچنیا میں مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلی گئی ہیں مگر کسی بھی یورپئین  کے کان پر انسانی حقوق کی جوں تک نہیں رینگی!  مگر جیسے ہی روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو انسانی حقوق کے علمبردار جاگ اٹھے: منافقت بلکہ شدید منافقت!

میرا یہ ورلڈ کپ نہ دیکھنے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ یورپ کی شیطانیت نے قطرکے اسلامی معاشرے کو ضرب لگانے کے لیے ایک نئی چال چلنے کی کوشش کی اور اس میں بڑے زور و شور سے ہم جنس پرستی کو بڑی سطح پر سپورٹ کرنے کا ارادہ کیا۔ یوں یورپ کی چند بڑی مگر خاص ٹیموں نے جن میں جرمنی سرِفہرست تھا، اس کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ اس عمل کو بہت زیادہ کورج دی گئی اور ٹورنامنٹ سے پہلے کچھ لوگ قطر بھیجے جنہوں نے سرعام اس مہم کو پبلک مقام پر سپورٹ کرنے کی کوشش کی، جسے قطر کے اتھارٹی نے منتشر کر دیا۔ قطری انتظامیہ نے اسکائی انگلینڈ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم ایک مہینے کے ٹورنامنٹ کے لیے چودہ سو سال کی رسومات کو ختم نہیں کر سکتے ۔ مگر جب جرمنی کے چانسلر اپنی ٹیم کا میچ دیکھنے آئی اس نے اپنے بازو پر اس مہم کا  logo چسپاں کر رکھا تھا اور جرمن ٹیم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسکا اظہار کیا – یہ الگ بات ہے کہ جرمنی کی ٹیم ابتدائی 3 میچ کھیلنے کے بعد ہی ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہو گئی۔

انسانی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنسی پرستی کی مہم کو سپورٹ کرنے سے زیادہ ضرورت انسانی دنیا کو درپیش دوسرے اہم موضوعات ہیں جیسے کہ غربت، بیماریاں، مفلسی، ناخواندگی، کرپش، غبن، لوٹ مار، سیاسی جبر، وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیات وغیرہ۔۔۔ مگر یہ منافقت کی شدید ترین انتہا ہے کہ ایک غلیظ مہم کو اتنی کورج دی گئی!

سن 2022 کا اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان شدید منافقت کا شکار ہے! منافقت شدید زوروں پر ہے!


بقلم: مسعود

SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW