Current Affairs Politics

Pakistan Youm-e-Takbeer

Pakistan Youm-e-Takbeer

Pakistan Youm-e-Takbeer

28 مئی کو پاکستان میں یومِ تکبیر منایا گیا اور حسبِ معمول مسلم لیگ ن نے الف سے لیکر ی تک اسکا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی!

مریم صفدر کے سوشل میڈیا نے بھی اپنی حتمی الامکان کوشش کی کہ نوازشریف کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود میاں صاحب نے بڑی بڑی پیسے کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ایٹمی تجربہ کیا! اور یہ کہ میاں صاحب نے تنِ تنہا پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا!

پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک تاریخی نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں میاں صاحب کا کیا کردار ہے!  Pakistan Youm-e-Takbeer

تاریخی پس منظر

تقسیمِ ہند کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر بہت سارے سائنسدان، ماہرِ ریاضی، ماہرِ کیمیا اور سائنس ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے۔

1948 میں آسٹریلیا کے بہت بڑے سائنسدان سر مارک اولیفینٹ نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم کو ایک خط لکھا جس میں اس نے لکھا کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں متحرک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اس وقت پورسے ہندوستان میں ایک مسلم سائنسدان ایسا ہے جو اس میں کافی کام کر سکتا ہے: رفیع محمد چوھدری۔

اس خط کے بعد رفیع محمد چوھدری بھی پاکستان منتقل ہوئے اور انہیں ایک ہائی ٹینشن لائبرٹی کے قیام اور اسکے صدر پر منتخب کیا گیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

1956 میں پاکستان اٹومک انرجی کمیشن کا اجرا ہوا۔ جس کا چیئرمین نذیر احمد کو بنایا گیا۔

نذیر احمد نے جنرل ایوب خان کو دومختلف میں سے ایک ایٹمی ری ایکٹر خریدنے کا مشورہ دیا، مگر ایوب خان کی حکومت نے دونوں مسترد کر دئیے۔

1958 میں نذیر احمد نے پاکستان انڈسٹرل ڈیلوپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کو پھر مشورہ دیا کہ ملتان کے قریب روزانہ 50 کلوگرام وزنی پانی پلانٹ لگایا جائے جس میں فرٹالئز فیکٹری ہو، مگر یہ مشورہ بھی مسترد کر دیا گیا اور اسکی پاداش میں نذیر احمد کو جنرل ایوب نے عہدے سے ہٹا کر شماریات کے ادارے میں لگا دیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

1959 میں امریکہ نے 5 میگاواٹ کا پول کی طرح کا ری ایکٹر مہیا کیا۔

1960 میں عشرت حسین عثمانی کو نذیر احمد کی جگہ پی اے ای سی کا چئیرمین لگایا گیا جس نے کراچی نیوکلیر پاوور پلانٹ بنانے میں اور ملک بھر میں یورینیم اور پلوٹینیم کی تلاش کے ادارے قائم کیے۔

1965 میں ایوب خان حکومت کے سائنس کے مشیر ڈاکٹر عبدالسلام امریکہ گئے اور راولپنڈی میں ایک ریسرچ ری ایکٹر لگانے کا معاہدہ کیا۔ عبدالسلام نے ایڈورڈ ڈیورل اسٹون سے بھی نیوکلئیر ریسرچ کے قیام کا معاہدہ کیا۔

اسی سال پی اے ای سی نے کینیڈا کی جنرل الیکٹرک کیساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت کراچی میں 137 میکا واٹ  نیو کلئیر پاوور پلانٹ کا معاہدہ کیا۔ عبدالسلام نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ امریکہ سے نیوکلئیر فیول ری پروسیسنگ کی قابلیت خریدی جائے مگر ایوب خان اور اسکے وزیرخزانہ محمد شعیب نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

1965 کے پاک بھارت کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اس خطرے کو بھانپ لیا جو ہندوستان کی جانب سے دن بدن بڑھ رہا تھا۔

بھٹو نے ویانا میں انٹرنیشنل اٹومک انرجی ایجنسی کی عالمی میٹنگ میں حصہ لیا۔ جہاں پر بھٹو کی ملاقات منیر احمد خان اور دوسرے پاکستان نژاد سائنسدان جو اس کمیٹی کے لیے کام کررہے تھے ان سے تفصیلاً ملاقات ہوئی۔

ان ملاقاتوں میں بھٹو کا ہندوستانی ایٹمی مومنٹ کا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ کس قدر آگے بڑھ چکے ہیں۔ وطن واپسی پر بھٹو نے ایوب خان کو اس پر باوور کروایا اور ہندوستان کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے سے مطلع کیا، مگر ایوب خان ٹس سے مس نہ ہوا اور اسکو بھی مسترد کر دیا۔

اسپر بھٹو کا ایک مشہور جملے سامنے آیا کہ “پریشان نہ ہوں ہمارا وقت بھی آئے گا”۔

1967 میں رفیح محمد چوھدری کی قیادت میں پاکستانی سائنسدانوں نے radioisotopes کا پہلا بیچ تیار کیا، نیوکلئیر کی ریسرچ کی ٹیکنولوجی اب تیزی کے مراحل سے آگے بڑھ رہی تھی جسکو سپروائز عبدالسلام کر رہے تھے۔

1968 میں قائد اعظم یونیورسٹی میں تھیوریٹیکل فزیکس پر ریسرچ کا اضافہ ہوا جس میں فہیم حسین، پیٹر روٹوئیلی، جان ممتاز، فیاض الدین، اشفاق احمد اور مسعود احمد نے کام کیا۔

سقوطِ ڈھاکہ کے تباہ کاریوں کے باعث پاکستان کو بہت شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نقصان سے بہت سخت معاشی دھچکہ لگا اور ملک تقریباً دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔  اس نے سائنس کے شعبے میں بھی بہت نقصان اٹھایا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں سیاسی قیادت آئی۔ 1972 میں ائی ایس آئی کو اطلاع ملی کہ ہندوستان اپنا پہلا ایٹمی تجربہ اسمائیلنگ بدھا کرنے والا ہے، جہاں ابھی پاکستان میں زیادہ تر وقت ریسریچ پر دیا گیا تھا۔

بھٹو نے منیر احمد خان کو ویانا سے بلایا اور عشرت حسین عباسی کو برخواست کر دیا۔ عبدالسلام نے پی اے ای سی کے سینئر سائنسدانوں سے ایمرجنسی میٹنگز کیں۔

1972 میں عبدالسلام نے نیوکلئیر ویپن پر کام شروع کیا اور اپنے دو شاگرد ریاض الدین اور مسعود احمد کو بلایا اور منیر احمد خان کے ماتحت لگایا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

  قائد اعظم یونیورسٹی کے تھیوریٹیکل گروپ نے ؔتھیوریٹٰکل فزیکس گروپؔ (ٹی پی جی) کا انعقاد کیا جسے سر پاکستان کی ایٹمی قابلیت کا سہرہ ہے۔ عبدالسلام نے ٹی پی جی میں مرکزی کردار ادا کیا۔

اسی ادارے نے Fast neutron calculations پر ریسرچ کی جو جوہری دھماکے کی اہلیت میں خاص ہوتی ہے۔ اس ادارے کا کلیدی رول تھا جس کا سپروائزر خود عبدالسلام تھا۔

1973 میں بھٹو نے ریاض الدین صدیقی کو پاکستان اٹومک انرجی کمیشن کا ممبر نامزد کیا، جس نے پھر Mathemetical Physics Group (MPG قائم کیا، اسکے بعد مزید کچھ سال کام ہوتا رہا۔

22 مئی 1974 مین ہندوستان نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ بھٹو نے اس کو خطے میں ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں ہندوستان کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور مزید ایک مشہور جملہ کہا کہ پاکستن عوام اگرہزار سال تک ہوا تو گھاس پھوس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

عبدالقدیرخان

ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنکی تعلیمی تربیت جرمنی سے ہوئی تھی اور جو metallurgical engineer and nuclear weapon technologis  تھے انہوں نے کئی سال بیلجیم اور ہالینڈ کے URENCO میں ملازمت کی تھی۔ اس ادارے میں وہ بہت سینئیر ٹرانسلیٹر تھے اور اسکی وجہ سے انکی رسائی اس ادارے کی حساس ترین معلومات تک تھی۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

عبدالقدیر خان نے 1974 بھٹو کو خط لکھا اپنی خدمات پیش کیں۔ بھٹو نے وہ خظ منیر احمد خان دیا جس نے سلطان بشیرالدین محمود کو ہالینڈ بھیجا جہاں پر عبدالقدیرخان سے انکی ملاقات ہوئی۔

خان صاحب اسکے بعد پاکستان واپس آ گئے اور بھٹو سے ملاقات کی، جس میں خان صاحب نے مشورہ دیا کہ پلاٹینیم کی بجائے یورینیم کے پروجیکٹ غور کیا جائے۔ بھٹو نے اتنے سال کہ پلاٹینیم کی محنت کو ختم کرنا ناقابلِ قبول سمجھا مگر فوری طور پر حکم دیا کہ ایک الگ پروجیکٹ شروع کیا جائے جس میں یورینیم کے پلاٹ پر کام کیا جائے جس میں خان صاحب کام کریں گے انکے سپروائزر بشیرالدین محمود ہونگے۔

19 اپریل 1976 کو عبدالقدیر خان صاحب نے منیر احمد خان کو خط لکھا کہ وہ اس سیٹ اپ سے خوش نہیں اور وہ آزادانہ کام کرنا چاھتے ہیں۔        Pakistan Youm-e-Takbeer

وہ خظ بھٹو صاحب تک پہنچا جس پر بھٹو نے ایک الگ ادارہ قائم کیا جس کا نام انجئرنگ ریسرچ لابرٹریز(ای آر ایل) رکھا جو بعد میں کہوٹہ ریسرچ لابرٹریریز (کے آر ایل) بنا۔ پی اے ای سی کی طرح کے آر ایل بھی براہِ راست بھٹو صاحب کو رپورٹ کرتا تھا۔

عبدالقدیر خان صاحب کو پی اے ای سی کی جانب سے ای آر ایل کے کاموں میں مداخلت نا پسند تھی، وہ چاہتے تھے کہ اس کی سربراھی پاکستان آرمی کے انجینرئنگ ڈیپارٹمنٹ کرے۔ ای آر ایل کا قیام بھٹو کی جانب سے تھا اور اسکا ٹاسک پاکستان آرمی کے انجینریرز کو دیا گیا تھا۔ الغرض برگیڈئیر زاھد اکبر خان، جو اس سے پہلے جی ایچ کیو کی کنسٹرکشن سے مشہور ہو چکے تھے، کی قیادت میں کام میں تیزی آئی۔

بھٹو نے برگیڈئیر کو کچھ خفیہ ٹاسک بھی دئیے اور کہوتہ اور پی اے ای سی دونوں کے کاموں میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔

اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی بیلجیم اور ہالینڈ میں جو تجربات تھے انکے مسودے اور اہم معلومات پاکستان اسمگل کرنا شروع کر دیں۔

برگیڈئیرزاھد احمد خان

بھٹو نے جنرل ٹکا خان سے ریکوسٹ کی کہ برگیڈئیر زاھد کو 2 اسٹار والے جنرل تک کے عہدے کی ترقی دی جائے کیونکہ اس رینک کا جنرل اس عہدے کے لیے زیادہ مناسب تھا۔

ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی

اس پروجیکٹ کو خاص کر خفیہ رکھنے کے لیے ایک کمیٹٰ تشکیل دی گئی جس کا سربراہ مبشرحسن کو بنایا گیا۔ کچھ سال بعد – جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے –

ڈاکٹر قدیر اس سے خوش نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ اس پروجیکٹ کو ملٹری کنٹرول کرے۔ جبکہ 1977 تک اس پروجیکٹ میں ملٹری کا کسی بھی قسم کا کوئی بھی خاص کردار نہیں تھا۔ انکا کردار خاص کر حفاظتی اقدام کا تھا۔

بھٹو کا انجام

یہاں پر یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ بھٹو کے وژن میں صرف ایٹم بم ہی نہیں تھا بلکہ وہ امتِ مسلمہ کے مابین ایک ایسا ملٹری ادارہ قائم کرنا چاھتا جو نیٹو کی طرز پر ہو اور جو امت کی حفاظت کرے۔ اس کے حق میں سعودی شاہ فیصل، لیبیا کے معمرقذافی، فلسطین کے یاسرعرافات خاص کر آگے آگے تھے۔ 

یہاں پر یہ بات بھی سب سے اہم اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ساری دنیا میں جس نے مالی طور پر سپورٹ کیا وہ صرف اور صرف لیبیا تھا۔ لیبیا نے اس شرط پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مالی اعیانت کی کہ لیبیا پھر اپنے سائنسدان پاکستان بھیجے گا جہاں پر انکی تربیت کی جائے گی اور لیبیا میں بھی ایٹمی پروگرام شروع کیا جائے گا۔

یہ دو بہت اہم معاملات تھے جو امریکہ کو سخت ناپسند تھے اور امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان آکر اوپن ٹی وی پر بھٹو کر وارننگ دی اور کہا:

Mr. Bhutto, we’ll make a horrible example of you!

ضیاالحق جو ایک تیسرے درجے کا جنرل تھا اس کو بھٹو ہی نے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا۔ ضیاالحق نے بدترین غداری کی اور بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ایک ایسا کیس جس میں بھٹو کا ہزارسال تک کا کوئی واسطہ نہیں تھا اس میں ملوث کر کے قانون کا بدترین قتل کیا اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

1977 میں پھر ایٹمی پروگرام پہلی بار مکمل طور پر آرمی کے ماتحت آ گیا۔ برگیڈئیر زاھد کو ترقی دی گئی اور ایٹمی پروگرام میں مزید تیزی آئی۔ سی آئی اے، کے جی بی اور اسرائیلی خفیہ تنظیموں سے بچنے کے لیے پاکستانی ایٹمی پروجیکٹ کو ہمیشہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اسکی شدید ترین حفاظت کی جاتی رہی۔

پاکستانی ایٹمی پروگرام دو روٹ سے چلا: ایک یورینیم روٹ اور ایک پلاٹینیم روٹ۔

لیبیا

جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لیبیا نے پاکستان کے ایٹمی پروجیکٹ جس کا نام پروجیکٹ 706 تھا، سب سے اہم مالی سپورٹ کیا۔ لیبیا کے معمرقذافی یہ پروجیکٹ لیبیا میں بھی شروع کرنا چاہتے تھے۔ اسکے لیے انہوں نے اپنے سائنسدان پاکستان بھیجیے جس ان لبرٹیوں میں علم سیکھا کرتے تھے۔ جنرل ضیاالحق کو معمر قذافی سے ذاتی عداوت تھی اور وہ قذافی کو پسند نہیں کرتا تھا۔ لہٰذا جیسے ہی ضیاالحق نے حکومت سنبھالی اس نے تمام لیبیا کے سائنسدانوں کو نکال دیا اور لیبیا نے مالی مدد بند کر دی۔

ضیاالحق کے بعد

پروجیکٹ 706 جب ملٹری کے نگین آیا اس کے بعد یہ کبھی کسی سوئیلین رہنما کے زیراثر نہیں رھا۔ اسکی مکمل ترتیب، تکمیل اور تشکیل اور حفاظت پاکستان ملٹری کے ہاتھ رہی ہے۔ اور یوں کہا جائے کہ سول حکومتوں کو ایک رتی برابر مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔

ایٹمی تجربہ

پروجیکٹ 706 کا تجربہ بہت پہلے ہو جاتا مگر کئی ایک وجوھات کی بنا پر ملتوی ہوتا رھا۔ جس کی ایک بہت اہم وجہ سیاسی صورتحال تھی جو انتہائی متزلزل رہی اور نون لیگ اور پی پی پی کی ایک دوسرے کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی مہیم نے ملکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔

یہ کہنا کہ ملٹری اور سول حکومتوں کے درمیان ایک شدید کشمکش رہی، اور سول حکومتوں کی آپس میں بدترین دشمنی رہی لہٰذا اس ملک میں کبھی ملٹری اور سول حکومتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکٰیں۔ اسکا عروج اسوقت ہوا جب مشرف کی قیادت میں پاکستان آرمی نے کشمیر نے ہندوستان کو ناکوں چنے چبو دئیے اور کارگل کی اہم ترین چوٹی فتح کر لی۔

یہ عمل ہندوستان میں تباھی ثابت ہوا اور ہندوستان نے امریکہ سے مدد مانگ لی۔ امریکہ نے نوازشریف جو اسک وقت وزیراعظم بنا بیٹھا تھا اسکو امریکہ بلایا اور حکم دیا کہ کارگل سے پاکستانی فوج واپس بلاؤ۔

نوازشریف کے حکم پر برطانیوی اخباروں میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لیے روگ آرمی کے نام اشتہارات چھپے! نوازشریف ہی کے حکم پر پاکستانی فوج کو کارگل خالی کرنا پڑا۔ جو کہ فوج اور نوازشریف میں خفگی کو عروج پر لے گیا۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے ہندوستان نے اپنے دوسرے ایٹمی پروگرام شکتی کا تجربہ کیا۔

اب پاکستان کے پاس کسی قسم کا کوئی چارا نہ رھا کہ پروجیکٹ 706 کا تجربہ کیا جائے اور ہندوستان کو باوور کرایا جائے کہ ہمارے پاس بھی ایٹم ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی گمان نہیں کہ یہ سارے کا سارا فیصلہ آرمی کا تھا اور خاص کر جب پاکستان کو کشمیر میں ایک اہم کامیابی کے بعد سیاسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔  ایٹمی تجربہ ناگزیر تھا!

مگر اس مقام پر بھی نوازشریف اس حق میں نہیں تھا کہ تجربہ کیا جائے۔ کیونکہ نوازشریف کو امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ایک بہت بڑی رقم ڈالرز کی صورت میں دی جانے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ وہ رقم تھی جو پاکستان نے کچھ سال پہلے امریکہ کو پے کی تھی اسلحہ خریدنے کے لیے، نہ اسلحہ ملا تھا نا پیسے واپس ملے تھے۔ وہ رقم اور کچھ رقم سعودیہ سے لیکر نوازشریف کا منہ بند کرانے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان ایٹمی تجربہ نہیں کرے گا۔لہٰذا نوازشریف آخر دم تک اس امید پر تھا کہ کہیں سے امریکہ سے پیسے مل جائیں۔

ادھر امریکہ میں بل کلنگٹن کا ایک انتہائی برا اسکینڈل سامنے آ گیا! کلنٹن اپنی سیکرٹری مونیکالیونسکی کے ساتھ آفس اوورز میں سیکس کرتے ہوئے پایا گیا۔ اب امریکہ میں ایسا کیس کوئی معنی نہیں رکھتا مگر قوم سے جھوٹ بولنا شدید جرم سمجھا جاتا ہے جو کہ کلنٹن نے اپنی عوام سے بولا کہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ جھوٹ کلنٹن کو صدرارت سے ہاتھ دھو بیٹھا! Pakistan Youm-e-Takbeer

اسی کشمکش میں کلنٹن کا نوازشریف سے کیا وعدہ مر کھپ گیا اور نوازشریف کے ہاتھ سے کارگل بھی گیا اور ڈالرز! ادھر سے آرمی کی نوازشریف سے نفرت بڑھتی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوازشریف کو ہر حال میں ایٹمی تجربے کو approve کرنا پڑا!

ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اسکو کریڈٹ نہیں دیتے جسکا حق بنتا ہے! ایٹمی پروجیکٹ بھٹو کا ہے اور بھٹو کے بعد پاکستان کی آرمی نے اسکو اپنے خون پسینے سے سیچنا ہے! یہ کئی ایک دھائیوں اور سینکڑوں لوگوں کے انتھک محنت تھی اس میں نوازشریف کا کردار اتنا ہی ہے جیسے عقیقے پر کھسروں کے ڈانس میں ایک کھسرا پیچھے کھڑا تالیاں بجا بجا کر کریڈٹ وصول کر رھا ہوتا ہے!

Pakistan Youm-e-Takbeer, Pakistan Nuclear Test, Pakistan Atomic Program, Project 706, Chagi1, Zulifqar Ali Bhutto, Zia ul Haq, Pakistan Army, Bill Clinton, 

بقلم مسعودؔ – ڈنمارک 12 جون 2019

Pegham Logo Retina

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

2 Comments

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW