غزلِ آتشؔ
غزلِ آتشؔ
وحشتِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتِ انسان پیدا
دل کے آئینے میں جوھرِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورتِ جاناں پیدا
باغِ سنسان نہ کر انکو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مراغِ خوش الہاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانۂ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلۂ جنباں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم خاکی سمجھ اسکو جو ہو زنداں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم عدم
دیکھتا ہوں جسے ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جسکی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجدِ اس کی ہے سیہ روزی ہماری آتشؔ
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شبِ ہجراں پیدا
شاعر: خواجہ حیدر علی آتشؔ
غزلِ آتشؔ
For Romanized Urdu see page 2
Add Comment