Sports

Pakistan Domestic Cricket – History

Pakistan Domestic Cricket - History

Pakistan Domestic Cricket – History

پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ: ایک مختصر تاریخ

پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن کا آج آغاز ہو رہا ہے۔

پہلا میچ لاہورقلندرز اور دفاعی چمپئن اسلام آباد یونائیڈڈ کے مابین دبئی میں کھیلا جا رہا ہے۔

تاریخ

پاکستان کا مقبول ترین کھیل کرکٹ ہے۔ جس کی ابتدا موجودہ پاکستان میں آزادی سے پہلے سے ہے۔ آزادی کے بعد غیر منظم کلب میچز منقعد ہوتے رہے۔

یکم مئی 1949 کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے تشکیل ہوئی، اور اسکے پرچم تلے کلب میچز ہوتے رہے۔ پہلی نیشنل چمپئین شپ 1953 کو منقعد ہوئی۔

27-29 دسمبر کو لاہور میں پنجاب اور سندھ کے مابین پہلا فرسٹ کلاس میچ ہوا۔ 6-8 فروری 1948 کو پنجاب گورنرزالیون اور پنجاب یونیورسٹی کے مابین لاہور میں میچ ہوا – اسکے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی، اور فرسٹ کلاس کرکٹ رک گیا۔

مارچ 1948 میں لاہور میں واحد فرسٹ کلاس میچ پنجاب گورنرزالیون اور پنجاب یونیورسٹی کے مابین ہوا۔ اس سال کی اہم بات ویسٹ انڈیز کا غیر آفیشل دورۂ پاکستان تھا، اور پاکستان کا غیرآفیشل دورۂ سیلون (موجودہ سری لنکا) تھا۔ اس دورے کی کپتانی سعیداحمد نے کی۔

1949-50 میں کوئی کلب میچ نہ ہوا، جبکہ اس سیزن میں کامن ویلتھ الیون اور سیلون کی ٹیم نے غیرآفیشل دورے کیے جس میں 5 فرسٹ کلاس میچز کھیلے گئے۔

1952 میں پاکستان کو ٹیسٹ کیپ کا درجہ ملا اور پہلا سرکاری دورہ کیا۔ یہ دورہ انڈیا کا تھا جس میں 5 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے۔ یہ ٹیسٹ میچز نئی دھلی، لکھنؤ، بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں کھیلے گئے، جس میں پہلے میچ میں انڈیا ایک اننگ سے جیتا اور دوسرا میچ پاکستان نے ایک ایک اننگ سے جیتا۔ فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ تھی جس میں 52 پر 5 اور 42 پر ساتھ کھلاڑی آؤٹ کیے۔ تیسرا ٹیسٹ انڈیا جیتا جبکہ آخری دو میچ برابر رہے۔

نیشنل چمپئین شپ

1953-54 میں قائداعظم ترافی کا انقعاد ہوا، جسے بہاولپور نے جیت لیا۔ اہم کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں حنیف محمد تھے جنہوں نے 128.25 کی اوسط سے 513 رنز بنائے۔

درجہ ذیل ٹیبل میں قائداعظم ٹرافی کے چمپئنز پیش کیے گئے ہیں

Pakistan Domestic Cricket – History

[table id=1 /]

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW