بزمِ سخن گلدستۂ غزل

قرب میسر ہو تو پوچھیں

قرب میسر ہو تو پوچھیں

قرب میسر ہو تو پوچھیں

قرب میسر ہو تو پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو
دُوری، آگ سے دُوری بہتر، قربت کا انجام ہے راکھ
آگ کا کام فروزاں ہونا، راکھ ضرور پریشاں ہو
سودا عشق کا سودا، ہم نے جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن، پیدا ہو یا پنہاں ہو
عشق وہ آگ کہ جس میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے
آگ میں تجھ کو کچھ نہیں ہو تو آ، اس آگ میں بریاں ہو
شہر کہ دشت، کہو بھئی سادھو، ہاں بھئی سادھو شہر کہ دشت
ہم بھی چاک گریباں ٹھہرے، تم بھی چاک گریباں ہو

شاعر: ابنِ انشأ

قرب میسر ہو تو پوچھیں

ایسا بھی ہوتا ہے نا کہ کوئی دل میں دل کی دھڑکن کے طرح بسا ہوتا ہے۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ اپنا ہے کہ پرایا؟
ایسے میں دوری قربت سے بہتر نہیں؟ اگر دل میں بسنے والا کہہ دے کہ وہ تو فقط مہماں ہے۔ ایسے میں راکھ تو ضرور پریشاں ہو گی۔
پرمسعود صاحب کیا کریں؟ یہ عشق جو ہے نا یہ انسان کے صبر و سکون کا سخت دشمن ہے۔ چاہے یہ عشق ظاہر ہو یا پوشیدہ۔
ہم نے تو جان بوجھ کر یہ پنگا لے لیا ہے۔
پر جو عشق کرنا ہی نہیں جانتے وہ کیا جانیں؟ عشق میں تپنے والے ہی اصل کندن ہوتے ہیں۔  باقی تو سب خام مال ہے۔

عاشقوں کا حال بیحال ہوتا ہے۔ وہ بھی سادھوؤں کیطرح چاک گریباں گلیوں گلیوں خاک اڑاتے ہیں – پھر چاہے جنگل ہو کہ شہر۔۔



lgourdu

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW