قرب میسر ہو تو پوچھیں
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو
آگ کا کام فروزاں ہونا، راکھ ضرور پریشاں ہو
عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن، پیدا ہو یا پنہاں ہو
آگ میں تجھ کو کچھ نہیں ہو تو آ، اس آگ میں بریاں ہو
ہم بھی چاک گریباں ٹھہرے، تم بھی چاک گریباں ہو
شاعر: ابنِ انشأ
قرب میسر ہو تو پوچھیں
ایسا بھی ہوتا ہے نا کہ کوئی دل میں دل کی دھڑکن کے طرح بسا ہوتا ہے۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ اپنا ہے کہ پرایا؟
ایسے میں دوری قربت سے بہتر نہیں؟ اگر دل میں بسنے والا کہہ دے کہ وہ تو فقط مہماں ہے۔ ایسے میں راکھ تو ضرور پریشاں ہو گی۔
پرمسعود صاحب کیا کریں؟ یہ عشق جو ہے نا یہ انسان کے صبر و سکون کا سخت دشمن ہے۔ چاہے یہ عشق ظاہر ہو یا پوشیدہ۔
ہم نے تو جان بوجھ کر یہ پنگا لے لیا ہے۔
پر جو عشق کرنا ہی نہیں جانتے وہ کیا جانیں؟ عشق میں تپنے والے ہی اصل کندن ہوتے ہیں۔ باقی تو سب خام مال ہے۔
عاشقوں کا حال بیحال ہوتا ہے۔ وہ بھی سادھوؤں کیطرح چاک گریباں گلیوں گلیوں خاک اڑاتے ہیں – پھر چاہے جنگل ہو کہ شہر۔۔
Add Comment