بزمِ سخن گلدستۂ غزل

چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری

چاہت میں کیا دنیا

چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری

چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو اُنکی اپنی مجبوری
میں نے دِل کی بات رکھی اور تو نے دنیا داروں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی اُنکا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے مصنوعی مجبوری
[spacer size=”30″]

شاعر: ؟

جب کوئی محبت میں مجبوری کی بات کرنا شروع کر دے تو اس کامطلب ہے وہ اسکو کبھی آپ سے محبت تھی ہی نہیں، وہ صرف احساسات و جذبات کے بہاؤ پر بہنے والا ایک بھنورا تھا جو پھول کی خوشبو اور اسکے رس کے چوسنے کا رسیا تھا کیونکہ محبت میں مجبوری ہوہی نہیں سکتی، چاھت کسی دنیاداری کو نہیں مانتی، جواس کو مجبوری بنائے وہ بیوفا، ہرجائی، سنگدل ہے اسکو محبت کا نام تک نہیں لینا چاہیے، لوگوں کے خوف کو مجبوری کا نام دینے والے محبت کے جذبے سے واقف ہو ہی نہیں سکتے،  جیسے مٹی کے کام مہکنا ہے  کیا کوئی کبھی بارش کو اسے پر پڑنے سے روک سکا ہے؟ محبت صرف سکھ سکون کا نام نہیں محبت تکالیف کا نام ہے جو ان تکالیف کو سہہ نہیں سکتا اور مصنوعی تو ہو سکتا محبوب نہیں۔۔۔

گلبہاربانو کی زبانی محبت اور مجبوری۔۔۔

[embedyt]https://www.youtube.com/watch?v=qNY4xBXQTqU[/embedyt]

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW