کہاں آکے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
.غزل
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ‘ جو نہیں ملا‘ اُسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دِلِ بے خبر مری بات سُن‘ اُسے بھول جا‘ اُسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں‘ تری آس‘ تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں‘ مرے ساتھ آ‘ اُسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم‘ تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا‘ تُو بھی مسکرا‘ اُسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی‘ نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دِلِ منتظر تو یہ کس لیے‘ ترا جاگنا‘ اُسے بھول جا
یہ جو رات دِن کا ہے کھیل سا‘ اِسے دیکھ اِس پر یقین نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئینہ اُسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا‘ وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا‘ اُسے مت بُلا‘ اُسے بھول جا
[spacer size=”30″]
شاعر: امجد اسلام امجدؔؔ
کہاں آکے رکنے تھے، جب اس نے فیصلہ کر ہی لیا ہے جانے کا تو اسے بلانے سے فائدہ؟
وہ شاید کسی اور کی خوشی تھا جو کچھ ذرا سی دل لگی کے لیے تمہاری زندگی میں آ گیا، تم سے کچھ عہدوپیمان کر لیے اور تم نے اسے محبت سمجھ لیا؟
نادان! دہ کسی اور منزل کا راہی تھا۔ وہ کسی اور پیاسی زمین کو سراب کرنے والا بادل تھا۔ کہاں آکے رکنے تھے!
تم راستے میں مل جانے والے ایک ہمسفر تھے جسے ایک مقام پر اس سے بچھڑنا تھا، بچھڑ گیا۔ کہاں آکے رکنے تھے!
اب یہ کہ اس کے لیے روتا رہے گا؟ رو لے کتنا روئے گا؟ بلا لے کتنا بلائے گا؟
ایک دن یہ ماننا ہی پڑے گا کہ تم جسکے دھیان بھی دن رات کھوئے رہے جسکے خواب دیکھے وہ سرابوں کے سوا کچھ نہیں تھے۔
وہ تمہاری بساطِ جان الٹ کر جا چکاہے اب صبا کی بات مان لے اور اسکے ساتھ چل – کہاں آکے رکنے تھے!
امجداسلام سے پوچھنا یہ ہے کہ یہ صبا کون ہے بھائی؟ 🙂
Add Comment