گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا
کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا
گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا
کہوں تو کس سے کہوں آکے اب سرِمنزل
سفر تمام ہوا، ہم سفر نہیں آیا
صبا نے فاش کیا رمزِ بوئے گیسوئے دوست
یہ جرم اہلِ تمنا کے سر نہیں آیا
پھر ایک خوابِ وفا بھر رہا ہوں آنکھوں میں
یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا
کبھی یہ زعم کہ خود آگیا تو مل لیں گے
کبھی یہ فکر کہ وہ کیوں ادھر نہیں آیا
میں وہ مسافرِ دشتِ غمِ محبت ہوں
جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا
مرے لہو کو، مری خاکِ ناگزیر کو دیکھ
یونہی سلیقۂ عرضِ ہنر نہیں آیا
فغاں کہ آئینہ و عکس میں بھی دنیا کو
رفاقتوں کا سلیقہ نظر نہیں آیا
مآلِ ضبطِ تمنا سحرؔ پہ کیا گزری
بہت دنوں سے وہ آشفتہ سر نہیں آیا
[spacer size=”30″]
شاعر: سحر انصاری
Add Comment