بزمِ سخن گلدستۂ غزل

میں نظر سے پی رھا ہوں

میں نظر سے پی رھا ہوں

میں نظر سے پی رھا ہوں

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
تیرا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
میرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
میرا جام چھونے والے تیرا ہاتھ جل نہ جائے
میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھدے
تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے
مجھے پھونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت کہیں ساتھ جل نہ جائے

[spacer size=”30″]

شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW