جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے
جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو، تیرا میخانہ یاد آتا ہے
بھول بیٹھا ہوں مدتوں سے جسے کیوں وہ افسانہ یاد آتا ہے
یاد رہتا نہیں مجھے پینا، توڑ دیتا ہوں ساغر و مینا
جب تیری مدھ بھری نگاہوں کا مجھ کو پیمانہ یاد آتا
یاد آتی ہے جب تیری مجھ کو ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں
دل نہیں لگتا صحنِ گلشن میں تیرا ویرانہ یاد آتا ہے
وہ کوئی بدنصیب ہی ہو گا روشنی سے نہیں ہے پیار جسے
ہو گیا جو شہید الفت میں وہی پروانہ یاد آتا ہے
لوگ کھاتے ہیں جب وفا کی قسم چوٹ سی دل پہ ایک لگتی ہے
مر مٹا جو وفا کی راہوں میں آج وہ دیوانہ یاد آتا ہے
غیر سمجھا جسے فریدی نے دوستی کے وھی تو قابل تھا
اپنے سب ہو گئے پرائے جب وھی بیگانہ یاد آتا ہے
شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)
اس کے شاعر کا نام ڈاکٹر مغیث الدین فریدی ہـے