بزمِ سخن گلدستۂ غزل

دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے

دلِ وحشی کی یہ

دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے

دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے
چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرالی جائے
یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
اِس کے سینے سے اگر لہر اٹھالی جائے
ہم سمجھتے ہیں محبت کے تقاضے لیکن
کیسے اُس در پہ کوئی بن کے سوالی جائے
یہ جو سودا ہے یہ مہنگا تو نہیں ہے ہرگز
سر کے بدلے میں جو دستار بچالی جائے
میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے
سعدؔ جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے
[spacer size=”30″]

شاعر: سعدؔاللہ شاہ

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW