بزمِ سخن گلدستۂ غزل

جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے

جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے

جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے

جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو، تیرا میخانہ یاد آتا ہے
بھول بیٹھا ہوں مدتوں سے جسے کیوں وہ افسانہ یاد آتا ہے

یاد رہتا نہیں مجھے پینا، توڑ دیتا ہوں ساغر و مینا
جب تیری مدھ بھری نگاہوں کا مجھ کو پیمانہ یاد آتا

یاد آتی ہے جب تیری مجھ کو ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں
دل نہیں لگتا صحنِ گلشن میں تیرا ویرانہ یاد آتا ہے

وہ کوئی بدنصیب ہی ہو گا روشنی سے نہیں ہے پیار جسے
ہو گیا جو شہید الفت میں وہی پروانہ یاد آتا ہے

لوگ کھاتے ہیں جب وفا کی قسم چوٹ سی دل پہ ایک لگتی ہے
مر مٹا جو وفا کی راہوں میں آج وہ دیوانہ یاد آتا ہے

غیر سمجھا جسے فریدی نے دوستی کے وھی تو قابل تھا
اپنے سب ہو گئے پرائے جب وھی بیگانہ یاد آتا ہے

[spacer size=”30″]

شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

1 Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW