نیاموسم نئی امیدیں
یوں تو جلائے بہت منتوں کے چراغ
پر جو سوچا وہ ہو نہ سکا
چاھا تھا کہ یہ دوریوں کے داغ
دھوؤں، پر دھو نہ سکا
کہ محبتوں میں وہ کشش نہ رہی
میرا تھا، مگر میرا ہو نہ سکا
پہلے پہل بہت رویا مگر
جب رونا تھا دل رو نہ سکا
دن بہار کے اور تو پہلو میں صنم
اس گھڑی کی نعمت بدل نہ سکی
غموں سے دور محبتوں میں مدغم
وفاؤں کی حرمت بدل نہ سکی
یکدم چلی پھر ہجر کی آندھی
جدائی تھی، قسمت بدل نہ سکی
کہا تھا تو نے فقط یہ روتے روتے
ساجن رسمِ محبت بدل نہ سکی
یہ حالت ہوئی ترے دیوانے کی
بکھری ہیں سوچیں، بیکل نیندیں
سوچا ہے کہ تجھ کو بھول ہی جاؤں
چھپی ہیں جو باتیں وہ کیوں کریدیں
بہت حسین تھے مقاماتِ محبت
ہر روز ملنا ہر روز عیدیں
مگر اب تو دل بھی مانگ اٹھا ہے صنم
نیا موسم ، نئی امیدیں
Add Comment