Meri Shairi Shab-o-Roz

Ashaar

Meri Shairi: Ashaar
Ashaar

اس کی آنکھوں میں اداسی کس کے نام کی تھی
پیلی پیلی سی رنگت رخِ گلفام کی تھی

سخت ترین ہو چلی تھی جب ایام کی تلخیاں
برس رہی تھیں خرمن پہ چار سو بجلیاں
گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راہیں کھو چکی تھیں
میرے جیون میں تیری نمو سے ہو گئی روشیناں

شاید تیری واپسی کا کوئی راستہ نہیں رھا
در مقفل نہ کرو کہ اب دھڑکا نہیں رھا
آنے پر لاکھ منتیں، جانے کا اک بہانہ
کیسے تمہیں روکیں کہ اب بہانہ نہیں رھا

یہ یاد کس کی آئی کہ چشم تر ہو گئی
عیاں بھیگی پلکوں سے تو اگر ہو گئی
کیا کہیں گے دنیا والے سوچا ہے تو نے کبھی
چھوڑ کر بیچ بھنور مجھ کو خود ساحل پر ہو گئی

محبت میں یہ زہر بھی اب پینا پڑے گا
اک زندہ لاش کی طرح جینا پڑے گا

گردشِ دوراں میں کھو چکا ہوں مجھے آواز نہ دو
میں اپنے حصے کا رو چکا ہوں مجھے آواز نہ دو

مسعودؔ

Ashaar

logo

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW