Ashaar
اس کی آنکھوں میں اداسی کس کے نام کی تھی
پیلی پیلی سی رنگت رخِ گلفام کی تھی
سخت ترین ہو چلی تھی جب ایام کی تلخیاں
برس رہی تھیں خرمن پہ چار سو بجلیاں
گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راہیں کھو چکی تھیں
میرے جیون میں تیری نمو سے ہو گئی روشیناں
شاید تیری واپسی کا کوئی راستہ نہیں رھا
در مقفل نہ کرو کہ اب دھڑکا نہیں رھا
آنے پر لاکھ منتیں، جانے کا اک بہانہ
کیسے تمہیں روکیں کہ اب بہانہ نہیں رھا
یہ یاد کس کی آئی کہ چشم تر ہو گئی
عیاں بھیگی پلکوں سے تو اگر ہو گئی
کیا کہیں گے دنیا والے سوچا ہے تو نے کبھی
چھوڑ کر بیچ بھنور مجھ کو خود ساحل پر ہو گئی
محبت میں یہ زہر بھی اب پینا پڑے گا
اک زندہ لاش کی طرح جینا پڑے گا
گردشِ دوراں میں کھو چکا ہوں مجھے آواز نہ دو
میں اپنے حصے کا رو چکا ہوں مجھے آواز نہ دو
Ashaar
Add Comment