Meri Shairi Shab-o-Roz

Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

Meri Shairi: Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai
Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

زندگی ناکام ہو چکی ہے
غم سے بھرا جام ہو چکی ہے

پینے کی عادت نہیں ساقی ورنہ
پینے کی تمنا عام ہو چکی ہے

میں تجھے کہاں ڈھونڈنے جاؤں؟
تیری ہستی برائے نام ہو چکی ہے

بہت ہو چکی ہے ادا جفا کی
میری وفا بھی الزام ہو چکی ہے

تجھ سے کیا میں شکوہ کروں
شکوے کی مہلت تمام ہو چکی ہے

کسی قصے کی ابتداْ کروں کیونکر
کہانی تو اب کہ انجام ہو چکی ہے

جور و ستم کا یہ زخم ہے وہ
تدبیر جس کی درد مدام ہو چکی ہے

تجھے دیکھ کر ملتی تھی خوشی دل کو
وہ خوشی تلخ آلام ہو چکی ہے

بیتے لمحوں کو یاد کر کے روؤں
یہ عادت میری صبح و شام ہو چکی ہے

نظر آئے نہ مجھے کوئی شعاعِ زندگی
لڑی پھولوں کی بھی دام ہو چکی ہے

مسعودؔ

Meri Shairi: Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

4 Comments

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW