Bezaargi
ہنگامہَ دن میں بیزارگی، آغوشِ شب میں بیزارگی
دل بیزار ہو تو ہے محفل کے ہر ڈھب میں بیزارگی
ماہ و انجم خاموش ہیں، خاموش ہیں نظارے
جہان و آسمان خاموش ہیں، خاموش ہیں انس و بت سارے
تایکیَِ شب میں ہے، تنہائی کا ساز پُرسوز بہت
اے رفتگانِ ہمسفر! آج ہے تیرا ہمراز پُرسوز بہت
آغوشِ شب میں جستجوئے سکوں ہے مجھے
مہتاب کی ٹھنڈی لَو بھی فسوں ہے مجھے
آرزوئے منزل ہو جسے وہ سفینہَ بے منزل ہوں میں
خود غرض ہی کہہ لو مجھے کہ فقط تیرا سائل ہوں میں
کس قدر شوخ ہے تمنائے بیتاب میری
کہ ہر وقت چومتی ہے خیال میں بنی تصویر تیری
فراق بھی ہے ہم میں، قربت بھی ہے ہم میں
چھپانا چاہا بھی نہ چھپا سکے، کہ محبت بھی ہے ہم میں
Add Comment