Meri Shairi Shab-o-Roz

Mera Qasoor Uska Sila

Mera Qasoor Uska Sila
Mera Qasoor Uska Sila
Mera Qasoor Uska Sila

میری آنکھوں کے آئینے میں عکس دیکھا توُ نے
میرے ہونٹوں کے پیمانے سے پیاس بجھائی توُ نے
میری بانہوں کے قلعے میں پناہ لی توُ نے
مجھے ساتھ چلنے کے لیے کہا ۔ میں چلا
تو تُو نے یہ محسوس کیا کہ
میں نارمل نہیں ہوں
تمہارے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چل نہ سکا
تم نے چاند تارے کہے، میں توڑ کے لا نہ سکا
میرے اپاہنج ہونے کا یہ صلہ دیا تُو نے
مجھے دنیا کے صحرا میں تنہا چھوڑ دیا تُو نے

اب تو آبِ حیات بھی زہر سمجھ کر پیتا ہوں میں
زندگی کی تمنا نہیں، بس مرنے کیلے جیتا ہوں میں

مسعودؔ

Meri Shaairi: Mera Qasoor, Uska Sila

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW