Basant
بچپن میں ایک کہانی پڑی تھی جس میں ایک جادوگر اپنے جادو کے بل بوتے پر ایک ہنستے بستے شہر کو سلا دیتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کو بھی اسی طرح کسی ظالم جادوگر نے جادوکرکے سلا دیا ہے۔ہماری قوم بھی اسی طرح کی ایک سوئی ہوئی قوم ہے جس پر غفلت نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایسی غفلت جس نے ہمیں حقائق سے بہت دور کردیا ہے اور ہم محض جھوٹی وقتی خوشیوں پر زندہ ہیں۔ ہمیں اپنے گردونواح میں ہونے والے واقعات سے کوئی دلچسپی نہیں۔
ایک ذرا برابر فکر نہیں ہمیں اپنے ہم وطنوں کی، ہم مذہبوں کی! ہمیں قطعی اِس بات کی پروا نہیں کہ دشمن کون سی چالیں چلنے کے لیے پر تول رہا ہے، ہمارے پاس ان باتوں کے لیے کوئی وقت نہیں کہ ملکی حالات کو سدھارنے کے لیے ہمیں کیا کرناچاہیے، کیسے اقدام کرنے چاہیے۔
ہمیں اپنے سیاسی افق پرامڈتے ہوئے کالے سیاہ بادل بھی پریشان نہیں کرتے۔ ملکی حالات ابتر ہیں اور دن بدن مزید ابتری کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔ یہ کیسے سنوریں گے اس بات سے ہمیں بالکل سروکار نہیں بلکہ ہم اسی بات پرخوش ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں۔
گناہوں کی بستی
ابھی سونامی کی ہولناکیاں ختم نہیں ہوئیں اور ہمارے ملک میں بسنت شان وشوکت سے منائی گئی ہے۔کیا سبق سیکھا ہے ہم نے اتنی بڑی تباہی سے؟ کچھ نہیں! کڑوڑوں روپیہ چند لمحوں کے رنق میلے پربرباد کردیا گیا ہے۔ایسی فیسٹیول جس کا ہمارے مذہب سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اُسے سرکاری سطح پر پزیرائی ہوئی ہے۔
لاہور میں ہوٹلوں کی بکنگ پر لاکھوں روپے لگے ہیں، ہوٹلوں،گیسٹ ہاؤسزاور رہائش گاہوں کی چھتیں کڑوڑوں روپوں میں بک ہوئی ہیں، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کے کرائے عام کراؤں سے تین گناہ زیادہ تک وصول کیے گئے۔ آخر ہماری قوم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آگیا ہے جو ایسی بیہودہ اور فضول رسم میں برباد کیا گیا ہے۔
شراب کے پرمٹ ہولڈروں کے ایک ماہ کا کوٹہ دو دن میں ختم ہوگیا، تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں سے شراب نایاب ہوگئی۔ جنگ اخبار کے مطابق فی بوتل پرپانچ سو سے ایک ہزار روپے زائدقیمت وصول کی گئی!!!!
اے امتِ رسولؐ کے رکھوالو! کیا شان ہے آپ لوگوں کی!! کیا خوب اپنی آخرت سنوارنے کاذریعہ ڈھونڈ لیا ہے آپ نے! بے خودی اور ضمیر فروشی کی حد ہوتی ہے!
اگر لاکھوں روپے کی شرابیں بیچی گئی ہیں تو زنا کتنے لاکھ کا ہوا ہے؟ کس کس بھیانک صورت رکھنے والے انسان نے اپنے نفس کو تسکین دینے کے لیے رات کی سیاہی میں اپنے چہرے کو مکروہ کیاہو گا؟ کس کس دوشیزہ کے آبروریزی کی گئی ہو گی؟ کس کس طوائف پر کتنا کتنا کڑوڑ نچھاور کیا گیا ہو گا؟
کب تک گناہوں کا یہ کھیل مہذب انداز میں کھیلا جائے گا؟ کب تک انا اور تقدیسِ مشرق کے رکھوالے سوئے رہیں گے؟ ملا کدھر ہیں؟
یہ بات ذہن نشین کر لیں: توبہ کے دروازے ابھی بند نہیں ہوئے، قبل اِس کے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس حق سے محروم کردیں، آئیے اپنے راستے کا تعین کریں اور اپنا آخرت کو سنواریں!
ایک کاغذکی پتنگ انسان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز دکھائی دیتی ہے۔ پتنگیں لوٹتے ہوئے موتیں ہوئیں۔
ہر دکھی پاکستانی کے ضمیر پر ایک ہی سوال ہے۔ اے پاکستان کے رکھوالو! کیا یہی قیمت ہے آپ کے نذدیک آزادی کی کہ آپ کو آنے والے بھیانک طوفان کی کوئی فکر نہیں؟
جس سے بات کرو وہ یہی کہتا ہے کہ آپ enjoyکرو کیوں اپنی جان کو فکروں میں ڈالتے ہو!!
بے حس، بے جان، مردہ لوگو! صرف اتنا بتا دو! دل میں اپنی قوم کا غم رکھنے والا پاکستانی کس اندھیرے کنویں میں ڈوب مرے ؟؟ کہاں وہ امان پائے!
محض وقت برباد کرنے سے کیا حاصل، کون ہے جو تعمیر کی جانب پہلا قدم اٹھائے ؟؟ شاید کوئی نہیں! ہرکوئی قوم کا وقت برباد کرنے میں لگا ہوا ہے۔
میں بھی! بے سُری بانسری بجا کر!!!
Add Comment